گزر گئی حد سے پائمالی، عتابِ ترکِ کلام کب تک
رہے گی مسدود اے سِتمگر! رہِ پیام و سلام کب تک
بہت ستاتی ہے اس کی دوری، تلافئ غم بھی ہے ضروری
ہو جلد صبحِ وصال یا رب، رہے گی فُرقت کی شام کب تک
قفس میں صیاد بند کر دے، نہیں تو بے رحم چھوڑ ہی دے
اگرچہ خود دلفگار بھی ہیں، مگر تغافل شعار بھی ہیں
وہ کر چکے تجھ پہ لطف حسرت، یہ آرزوئے خام کب تک
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment