بڑے تحمل سے رفتہ رفتہ نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ نکالنا ہے
یہ بیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
یہ روح برسوں سے دفن ہے تم مدد کرو گے
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرِندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
میں اک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلمکار
مجھے کہانی میں ڈال غصہ نکالنا ہے
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment