پرستار
وہ جو کہلاتا تھا دیوانہ ترا
وہ جسے حفظ تھا افسانہ ترا
جس کی دیواروں پہ آویزاں تھیں
تصویریں تری
وہ جو دہراتا تھا
تقریریں تری
وہ جو خوش تھا تری خوشیوں سے
ترے غم سے اداس
دور رہ کے جو سمجھتا تھا
وہ ہے تیرے پاس
وہ جسے سجدہ تجھے کرنے سے
انکار نہ تھا
اس کو دراصل کبھی تجھ سے
کوئی پیار نہ تھا
اس کی مشکل تھی
کہ دشوار تھے اس کے رستے
جن پہ بے خوف و خطر
گھومتے رہزن تھے
سدا اس کی انا کے در پے
اس نے گھبرا کے
سب اپنی انا کی دولت
تیری تحویل میں رکھوا دی تھی
اپنی ذلت کو وہ دنیا کی نظر
اور اپنی بھی نگاہوں سے چھپانے کے لئے
کامیابی کو تری
تری فتوحات
تری عزت کو
وہ ترے نام تری شہرت کو
اپنے ہونے کا سبب جانتا تھا
ہے وجود اس کا جدا تجھ سے
یہ کب مانتا تھا
وہ مگر
پر خطر راستوں سے آج نکل آیا ہے
وقت نے تیرے برابر نہ سہی
کچھ نہ کچھ اپنا کرم اس پہ بھی فرمایا ہے
اب اسے تیری ضرورت ہی نہیں
جس کا دعویٰ تھا کبھی
اب وہ عقیدت ہی نہیں
تیری تحویل میں جو رکھی تھی کل
اس نے انا
آج وہ مانگ رہا ہے واپس
بات اتنی سی ہے
اے صاحب نام و شہرت
جس کو کل
تیرے خدا ہونے سے انکار نہ تھا
وہ کبھی تیرا پرستار نہ تھا
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment