Monday 16 July 2018

پرستار

پرستار

وہ جو کہلاتا تھا دیوانہ ترا 
وہ جسے حفظ تھا افسانہ ترا 
جس کی دیواروں پہ آویزاں تھیں 
تصویریں تری 
وہ جو دہراتا تھا 
تقریریں تری 

وہ جو خوش تھا تری خوشیوں سے 
ترے غم سے اداس 
دور رہ کے جو سمجھتا تھا 
وہ ہے تیرے پاس 
وہ جسے سجدہ تجھے کرنے سے 
انکار نہ تھا 
اس کو دراصل کبھی تجھ سے 
کوئی پیار نہ تھا 
اس کی مشکل تھی 
کہ دشوار تھے اس کے رستے 
جن پہ بے خوف و خطر 
گھومتے رہزن تھے 
سدا اس کی انا کے در پے 
اس نے گھبرا کے 
سب اپنی انا کی دولت 
تیری تحویل میں رکھوا دی تھی 
اپنی ذلت کو وہ دنیا کی نظر 
اور اپنی بھی نگاہوں سے چھپانے کے لئے 
کامیابی کو تری 
تری فتوحات 
تری عزت کو 
وہ ترے نام تری شہرت کو 
اپنے ہونے کا سبب جانتا تھا 
ہے وجود اس کا جدا تجھ سے 
یہ کب مانتا تھا 
وہ مگر 
پر خطر راستوں سے آج نکل آیا ہے 
وقت نے تیرے برابر نہ سہی 
کچھ نہ کچھ اپنا کرم اس پہ بھی فرمایا ہے 
اب اسے تیری ضرورت ہی نہیں 
جس کا دعویٰ تھا کبھی 
اب وہ عقیدت ہی نہیں 
تیری تحویل میں جو رکھی تھی کل 
اس نے انا 
آج وہ مانگ رہا ہے واپس 
بات اتنی سی ہے 
اے صاحب نام و شہرت 
جس کو کل 
تیرے خدا ہونے سے انکار نہ تھا 
وہ کبھی تیرا پرستار نہ تھا 

جاوید اختر 

No comments:

Post a Comment