Monday, 16 July 2018

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے

 آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے 

آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے 

زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں 

موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے 

میری پیشانی پہ اک سجدہ تو ہے لکھا ہوا 

یہ نہیں معلوم ہے کس آستانے کے لیے 

ان کا وعدہ اور مجھے اس پر یقیں اے ہم نشیں 

اک بہانہ ہے تڑپنے تلملانے کے لیے 

جب سے پہرہ ضبط کا ہے آنسوؤں کی فصل پر 

ہو گئیں محتاج آنکھیں دانے دانے کے لیے 

آخری امید وقت نزع ان کی دید تھی 

موت کو بھی مل گیا فقرہ نہ آنے کے لیے 

اللہ اللہ دوست کو میری تباہی پر یہ ناز 

سوئے دشمن دیکھتا ہے داد پانے کے لیے 

نعمت غم میرا حصہ مجھ کو دے دے اے خدا 

جمع رکھ میری خوشی سارے زمانے کے لیے 

نسخۂ ہستی میں عبرت کے سوا کیا تھا حفیظ 

سرخیاں کچھ مل گئیں اپنے فسانے کے لیے


حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment