Tuesday, 3 July 2018

ایوان عدالت میں

ایوان عدالت میں

نذیر عباسی کی شہادت پر کہی گئی ایک نظم

پتھرائی ہوئی آنکھیں
پتھراۓ ہوۓ چہرے
پتھرائی ہوئی سانسیس
چمڑے کی زبانوں پر 
پتھرائی ہوئی باتیں

فریاد کٹہرے میں
رو رو کے تڑپتی تھی
قانون کے رکھوالے
کل لے کے گئے جس کو
اب اس کو یہاں لائیں
وہ نعش تو دکھلائیں

پتھراۓ ہوۓ چہرے
پتھرائی ہوئی آنکھیں
چمڑے کی زبانوں پر
لچکی ہوئی کچھ باتیں
پتھر کہ جو چکنے تھے
ہاتھوں سے پھسلتے تھے 
قانون کے نکتے تھے
کیا لوگ سمجھتے تھے
سنگیں مجبوری ہے
درخواست ادھوری ہے

پتھراۓ ہوۓ دلوں میں تو
بس ریت برستی تھی
ہر آنکھ کہ پتھر تھی
اشکوں کو ترستی تھی
یکدم کوئی دل دھڑکا
شعلہ سا کہیں بھڑکا
جب تک کوئی سمجھے
لو پھوٹ بہے دھارے
آوازیں ملیں باہم
اور گونج اٹھے نعرے 
معصوم سی جانوں کے 
بے تاب جوانوں کے

کیا شور لہو کا تھا
کیا گونج تھی نعروں میں
ایوان عدالت میں 
پتھراۓ ہوۓ کمرے
دم روک کے سنتے تھے

جب سرخ سلام آیا
مقتول کا نام آیا
گھونسہ سا لگا دل پر
آنکھوں سے لہو پھوٹا
جیتے رہو دل والو
پتھر تو کوئی ٹوٹا

فہمیدہ ریاض

No comments:

Post a Comment