Monday 29 February 2016

جو عکس خواب میں رکھا گیا نہیں بدلا

جو عکس خواب میں رکھا گیا نہیں بدلا
پھر اس کے بعد کبھی آئینہ نہیں بدلا
تمام عمر محبت کی چاشنی میں رہے
اگرچہ تلخ رہا،۔ ذائقہ نہیں بدلا
خِرد نے میرے جنوں پہ لگا دیا فتویٰ
مِری یہ سوچ، مِرا فلسفہ نہیں بدلا

بعد مدت وہ ہنسا ہو جیسے

بعد مدت وہ ہنسا ہو جیسے
شاخ پر پھول کھلا ہو جیسے
شرم سے راہ سمٹنے لگی ہے
تُو مِرے ساتھ چلا ہو جیسے
اشک گرنے پہ میں رویا ہوں بہت
مِری آنکھوں میں پلا ہو جیسے

جان جاتی تھی کار الفت میں

جان جاتی تھی کارِ الفت میں 
اس نے بوسہ دیا ہے اجرت میں
تُو ملا ہے نہ میرے دل کو قرار
پڑ گیا میں یہ کس مصیبت میں 
اک حقیت ہے اس فسانے میں 
اک فسانہ ہے اس حقیقت میں

اگر نہ ہو گا کبھی اپنا رابطہ طے ہے

اگر نہ ہو گا کبھی اپنا رابطہ طے ہے
تو لگ رہا ہے محبت کا مرحلہ طے ہے
ہر ایک سانس پہ تاوان کس کو بھرنا جب
بشر کے ساتھ خدا کا معائدہ طے ہے
کہاں پہ خاک اڑانی ہے، بیٹھنا ہے کہاں
مسافرانِ محبت کا راستہ طے ہے

رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا

رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پُروائی کا
اڑتے لمحوں کے دامن میں تیری یاد کی خوشبو ہے
پچھلی رات کا چاند ہے یا ہے عکس تِری انگڑائی کا 
کب سے نجانے گلیوں گلیوں ساۓ کی صورت پھرتے ہیں
کس سے دل کی بات کریں ہم شہر ہے اس ہرجائی کا

جب سر شام کوئی یاد مچل جاتی ہے

جب سرِ شام کوئی یاد مچل جاتی ہے
دِل کے ویرانے میں اک شمع سی جل جاتی ہے
جب بھی آتا ہے کبھی ترکِ تمنا کا خیال
لے کے اک موج کہیں دور نکل جاتی ہے
یہ ہے مے خانہ یہاں وقت کا احساس نہ کر
گردشِ وقت یہاں جام میں ڈھل جاتی ہے

ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت

ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت
پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساسِ تنہائی بہت
اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں
ہم نے کر کے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت
منہ چھپا کر آستیں میں دیر تک روتے رہے
رات ڈھلتی چاندنی میں اس کی یاد آئی بہت

تند مے اور ایسے کم سن کے لیے

تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا ان کے لیے
حور یارب! ہے جو مومن کے لیے
بھیج دے دنیا میں دو دن کے لیے
وائے قسمت وہ بھی کہتے ہیں برا
ہم برے سب سے ہوئے جن کے لیے

Saturday 27 February 2016

چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے

چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے 
کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے
مجھ سے تصویر طلب کرتی ہیں آنکھیں میری
میں نے کچھ رنگ چنے تھے تِرے شیرازے سے
صاف گوئی سے اب آئینہ بھی کتراتا ہے
اب تو پہچانتا ہوں خود کو بھی اندازے سے

نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے

نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے
سحر ہوئی تو خراشیں چنیں بچھونے سے
صدف لیے ہوئے ابھری ہے لاش بھی میری
بچا رہے تھے مجھے لوگ غرق ہونے سے
ہنر ہے تجھ میں تو قائل بھی کر زمانے کو
چمک اٹھے گی نہ شکل آئینے کو دھونے سے

ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا

ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا
موجوں کے لیے کوئی کنارہ نہیں ہوتا
دل ٹوٹ بھی جائے تو محبت نہیں مٹتی
اس راہ میں لٹ کر بھی خسارا نہیں ہوتا
سرمایۂ شب ہوتے ہیں یوں تو سبھی ستارے
ہر تارہ مگر صبح کا تارا نہیں ہوتا

جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے

جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے 
پھوڑ لوں سر نہ کہیں جسم کی دیواروں سے
اپنے رِستے ہوئے زخموں پہ چھڑک لیتا ہوں
راکھ جھڑتی ہے جو احساس کے انگاروں سے
گیت گاؤں تو لپک جاتے ہیں شعلے دل میں
ساز چھیڑوں تو نکلتا ہے دھواں تاروں سے

چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی

چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی
دل ڈوبنے لگا تو ابھارا کبھی کبھی
ہر چند اشک یاس سے جب امڈے تو پی گئے
چمکا فلک پہ ایک ستارا کبھی کبھی
میں نے تو ہونٹ سی لیے، اس دل کو کیا کروں
بے اختیار تم کو پکارا کبھی کبھی

نگہ شوق کو یوں آئینہ سامانی دے

نِگہِ شوق کو یوں آئینہ سامانی دے
عشق کو حسن بنا حسن کو حیرانی دے
دلنوازی میں بھی ایذا ہے محبت کی قسم
تجھ کو فرصت جو کبھی شغلِ ستم رانی دے
کچھ تِری چشمِ سخن ساز کا ایما نہ کھلا
لبِ مے نوش کو تکلیفِ گل افشانی دے

نگاہ ناز تیری فتنہ سامانی نہیں جاتی

نگاہِ ناز! تیری فتنہ سامانی نہیں جاتی
کبھی جو دل ٹھہرتا ہے تو حیرانی نہیں جاتی
نظر اس حسنِ تاباں تک بآسانی نہیں جاتی
مگر جا کر پلٹتی ہے تو پہچانی نہیں جاتی
ہوئی مدت کہ اس نے ناز سے دامن کو جھٹکا تھا
ابھی تک موجۂ گل کی پریشانی نہیں جاتی

جب سے ان سے آنکھ لڑی ہے آنکھوں میں اپنی خواب نہیں

جب سے ان سے آنکھ لڑی ہے آنکھوں میں اپنی خواب نہیں
اُس پہ مصیبت یہ ہے ہمدم! صبر کی دل کو تاب نہیں
پوچھنے والے تُو نے پوچھا لطف کرم، احسان کیا
لب پر آئے حرف تمنا، عشق کے یہ آداب نہیں
عشق و جنوں کچھ فرداً فرداً کم نہ تھے اور جب سازش کی
ایسے بن میں لا کر مارا کوسوں جس میں آب نہیں

اس دل کے خونی دریا میں ہم پہلی بار نہیں اترے

اس دل کے خونی دریا میں ہم پہلی بار نہیں اترے
دکھ لیکن اب کے بھاری تھے ڈوبے تو پار نہیں اترے
سنسان افق تکتے تکتے اب آنکھیں ہمت ہار گئیں
جس صبح کا ہم سے وعدہ تھا اس کے آثار نہیں اترے
ہر صبح چمکتے سورج کی تھالی میں بھر کر آتے ہیں
اب تک ان خالی شاخوں پر کرنوں کے ہار نہیں اترے

وفا کے نام پہ یہ امتحان بھی دے دوں

وفا کے نام پہ یہ امتحان بھی دے دوں
اگر کہو تو میں قدموں پہ جان بھی دے دوں
ہو اختیار مِرا،۔ اور وہ اگر مانگے
تو یہ زمیں ہی نہیں آسمان بھی دے دوں
چکاؤں کتنی میں اک اعتبار کی قیمت
یقین تو ٹوٹ چکا ہے گمان بھی دے دوں

کسی بہانے سہی دل لہو تو ہونا ہے

کسی بہانے سہی دل لہو تو ہونا ہے
اس امتحاں میں مگر سرخرو تو ہونا ہے
ہمارے پاس بشارت ہے سبز موسم کی
یقیں کی فصل لگائیں، نمو تو ہونا ہے
میں اس کے بارے میں اتنا زیادہ سوچتا ہوں
کہ ایک روز اسے رو برو تو ہونا ہے

دھواں اٹھنے لگا جب دشتِ جاں سے

دھواں اٹھنے لگا جب دشتِ جاں سے
نہ جانے آ گئے بادل کہاں سے
پرندے اڑ گئے شاخِ صدا کے
معانی گم ہوئے لفظ وبیاں سے
نہ جانے کیوں اچانک بڑھ گیا ہے
زمیں کا فاصلہ اب آسماں سے 

حضور یار چلے جب بھی سر جھکا کے چلے

حضورِ یار چلے جب بھی، سر جھکا کے چلے
یہی لگا ہے کہ ہم سامنے خدا کے چلے​
ہم اس لیے تو دِیے سے دِیا جلا کے چلے
ہمیں خبر تھی کہ ہم سامنے ہوا کے چلے​
یہ پُلِ صراط نہیں، یہ ہے پُل محبت کا
بڑے بڑے ہیں جو اِس پُل پہ ڈگمگا کے چلے

اس نے دل پھینکا خریداروں کے بیچ

اس نے دل پھینکا خریداروں کے بیچ
پھر کوئی محشر تھا بازاروں کے بیچ
تُو نے دیکھی ہے پرستش حسن کی
آ کبھی اپنے پرستاروں کے بیچ
سر ہی ٹکرا کے گزر جاتے ہو کیوں
گھر بھی کچھ ہوتے ہیں دیواروں کے بیچ

نظر کا وار تھا پہلا ہی قاتلانہ ہوا

نظر کا وار تھا، پہلا ہی قاتلانہ ہُوا
پھر اس کے بعد وہ قاتل کبھی رِہا نہ ہُوا
کہاں تلاش کریں، کس جگہ اسے ڈھونڈیں
ہمارا اس سے تعارف ہی غائبانہ ہُوا
گزر گیا وہ جو لمحہ تھا اس کی چاہت کا
عدیمؔ اب وہ ہمارا ہُوا، ہُوا نہ ہُوا

جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا

جسے عدیمؔ سدھارے ہوئے زمانہ ہُوا
اسی کے ساتھ یہ دل بھی کہیں روانہ ہُوا
بس ایک ہُوک دھڑکتی ہے اب تو سینے میں
ہمارے دل کو تو دھڑکے ہوئے زمانہ ہُوا
دھواں سا ہے، نہ بھڑکتا ہے دل نہ بجھتا ہے
اسی طرح سے سلگتے ہوئے زمانہ ہُوا

Thursday 25 February 2016

مر گیا میں بھری جوانی میں

مر گیا میں بھری جوانی میں
عشق تھا ہی نہیں کہانی میں
موج در موج خواب رقصاں ہیں
عکس ٹھہرا ہوا ہے پانی میں
اب یقین و گمان کچھ بھی نہیں
پہلے رہتا تھا بدگمانی میں

جس سے امید جانثاری کی

جس سے امیدِ جانثاری کی
بات اس نے بھی کاروباری کی
زندگی ناگ تھی کچل ڈالی 
ایک ہی چوٹ ایسی کاری کی
یہ لکیریں نہیں ہیں چہرے پر 
وقت نے مجھ پہ دستکاری کی

ترے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی

تِرے لیے بھی رعایت تو ہو نہیں سکتی
کہ اب دوبارہ محبت تو ہو نہیں سکتی
یہاں سنا ہے ہواؤں کی حکمرانی ہے
یہاں چراغوں کی عزت تو ہو نہیں سکتی
ذرا سی تلخ کلامی سے ہم نہ بدلیں گے
پرانی شے کی مرمت تو ہو نہیں سکتی

ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے

ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے
زندگی میں بھی زندگی کم ہے
کیا ہوا تجھ کو میرے شہرِ سخن
شعر کافی ہیں، شاعری کم ہے
کتنا لمبا ہے ہجر کا رستہ
تیری یادوں کو ڈائری کم ہے

Tuesday 23 February 2016

یہ دیوانے کبهی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے

یہ دیوانے کبهی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے 
گریباں چاک جب تک کر نہ لیں گے دم نہیں لیں گے
یہ غم کس نے دیا ہے پوچھ مت اے ہمنشیں! ہم سے 
زمانہ لے رہا ہے نام اس کا،۔ ہم نہیں لیں گے
محبت کرنے والے بهی عجب خوددار ہوتے 
جگر پر زخم لیں گے، زخم پر مرہم نہیں لیں گے

تجھے سنگ دل یہ پتا ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا

تجھے سنگدل یہ پتا ہے کیا کہ دُکھے دلوں کی صدا ہے کیا
کبھی چوٹ تُو نے بھی کھائی ہے، کبھی تیرا دل بھی دُکھا ہے کیا
تُو رئیسِ شہرِ ستم گراں،۔۔ میں گدائے کوچۂ عاشقاں
تُو امیر ہے تو بتا مجھے میں غریب ہوں تو برا ہے کیا
تُو جفا میں مست ہے روز و  شب، میں کفن بدوش غزل بلب
تِرے رعبِ حسن سے چپ ہیں سب، میں بھی چپ رہوں تو مزا ہے کیا

اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے

اپنی مجبوری کو ہم دیوار و در کہنے لگے
قید کا ساماں کیا اور اس کو گھر کہنے لگے
درج ہے تاریخِ وصل و ہجر اک اک شاخ پر
بات جو ہم تم نہ کہہ پائے، شجر کہنے لگے
خوفِ تنہائی دکھاتا تھا عجب شکلیں سو ہم
اپنے سائے ہی کو اپنا ہم سفر کہنے لگے

شعر کہے اور ایماں اپنا تازہ کیا

شعر کہے اور ایماں اپنا تازہ کیا
ہم نے اپنی قوت کا اندازہ کیا
پہلے تو اپنی شیرازہ بندی کی
پھر خود ہی برہم اپنا شیرازہ کیا
پہلے دل کے سارے دریچے بند کیے
پھر گھبرا کر وا گھر کا دروازہ کیا

مجھے کس شب ملال گریۂ شبنم نہیں ہوتا

مجھے کس شب ملالِ گریۂ شبنم نہیں ہوتا 
مجھے وہ غم بھی ہوتا ہے، جو میرا غم نہیں ہوتا
یہ صبح و شام ہیں اک رشتۂ احساس سے قائم
نگاہیں پھیر لو، تو پھر کوئی عالم نہیں ہوتا
گزر جاتے ہیں طوفاں اور آہٹ تک نہیں ہوتی
برس جاتی ہیں آنکھیں اور دامن نم نہیں ہوتا

مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے

گیت

مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے
تُو بھی جاگے، تُو بھی تڑپے، تُو بھی نیر بہائے

بادل گرجے، بجلی چمکے، تڑپ تڑپ رہ جائے
پت جھڑ آئے، چھائے اداسی، من میں آگ لگائے
تُو بھی ان کو یاد کرے اور تھام کے دل رہ جائے
مجھے بھلانے والے تجھے بھی چین نہ آئے

ساتھی تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر

تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر

گیت

ساتھی، تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر
ہم بیٹے ہیں سمندر کے ہم طوفانوں کے پالے ہیں
ہر مشکل سے ہم ہنس ہنس کے ٹکرانے والے ہیں
ساتھی، تیرا میرا ساتھی ہے لہراتا سمندر

تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا

تم نے کہا تھا چپ رہنا سو چپ نے بھی کیا کام کیا
چپ رہنے کی عادت نے، کچھ اور ہمیں بدنام کیا
فرزانوں کی تنگ دلی فرزانوں تک محدود رہی
دیوانوں نے فرزانوں تک رسمِ جنوں کو عام کیا
کنجِ چمن میں آس لگائے چپ بیٹھے ہیں جس دن سے
ہم نے صبا کے ہاتھ روانہ ان کو اک پیغام کیا

عہد حاضر پر مرے افکار کا سایہ رہا

عہدِ حاضر پر مِرے افکار کا سایہ رہا 
بجلیاں چمکیں بہت، میں ابر تھا چھایا رہا
وہ خرابہ ہوں کہ جس پر روشنی رقصاں رہی
وہ تہی دامن ہوں جس کا فکر سرمایہ رہا 
کیا حریفانہ گزاری ہے حیاتِ نغمہ کار 
میں زمانے کا، زمانہ میرا ٹھکرایا رہا 

Monday 22 February 2016

کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے

کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے
ہم لوگ خوش ہیں آج بھی دنیا سمیٹ کے
کتنی تھی احتیاج ہمیں آفتاب کی
بیٹھے تھے کچھ پہاڑ بھی برفیں لپیٹ کے
ہم سامنے تھے میز پہ اک دکھ کے سائے تھے
بس نقش دیکھتے رہے خالی پلیٹ کے

اک وقت تو ایسا تھا کہ دن رات کڑے تھے

اک وقت تو ایسا تھا کہ دن رات کڑے تھے
پانی کا ہمیں خوف تھا مٹی کے گھڑے تھے
ہم نیند کے عالم میں کوئی موڑ مڑے تھے
دیکھا تو ابد گیر زمانے میں کھڑے تھے
معلوم ہے جس موڑ پہ بچھڑے تھے اسی جا
کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے اشجار کھڑے تھے

Sunday 14 February 2016

بھڑکا دیا شعلوں کو یہ کس نے ہوا دی ہے

بھڑکا دیا شعلوں کو یہ کس نے ہوا دی ہے
اس امن کی بستی میں کیوں آگ لگا دی ہے
اچھائی کا وہ اپنی پائے گا صلہ اک ان
وہ جس نے برائی کی تصویر مٹا دی ہے
ہم ان کی نگاہوں میں اک دن نہ سما پائے
ہم نے انہیں آنکھوں میں اور قلب میں جا دی ہے

بھروسا کر لوں یہ میں کوئی باوفا تو لگے

بھروسا کر لوں یہ میں کوئی باوفا تو لگے
کوئی فرشتہ صفت، کوئی بے خطا تو لگے
کوئی کمی ہے اگر مجھ میں مان لوں میں بھی
یہ شرط ہے،۔ کہ کوئی مثلِ آئینہ تو لگے
عذابِ جاں ہے یہ دنیا تو چھوڑوں، لیکن
عدو کی حق میں مِرے کوئی بددعا تو لگے

جس طرف دیکھئے ہنگامہ بپا لگتا ہے

جس طرف دیکھیے ہنگامہ بپا لگتا ہے
اب تو کچھ کہنا بھی صحرا کی صدا لگتا ہے
کوئی انصاف نہیں، کوئی سماعت بھی نہیں
اس عدالت میں تو جانا بھی خطا لگتا ہے
کیوں نہ وہ خود ہی ذرا جائزہ لے لیں اپنا
میں اگر کچھ بھی کہوں ان کو برا لگتا ہے

اگر نہیں ہے مری پیاس کے مقدر میں

اگر نہیں ہے مِری پیاس کے مقدر میں
تو خاک ڈال دے جا کر کوئی سمندر میں
پہاڑ کاٹ کے نہریں نکالنے والے
اگا کے فصل دکھائیں ہمارے بنجر میں
تمام رات اندھیرے سے جنگ کرنا ہے
اور اک چراغ ہی باقی بچا ہے لشکر میں

یہی نہیں کہ بس اک سائبان ٹوٹتا ہے

یہی نہیں کہ بس اک سائبان ٹوٹتا ہے
پھر اس زمین پہ مِرا آسمان ٹوٹتا ہے
خطا تو اور زمینیں بھی کرتی رہتی ہیں
تو صرف ہم پہ ہی کیوں آسمان ٹوٹتا ہے
پھر ایک دوسری دیوار درمیاں آئی
پھر ایک سلسلۂ جسم و جان ٹوٹتا ہے

کچھ خیال دل ناشاد تو کر لینا تھا

کچھ خیالِ دلِ ناشاد تو کر لینا تھا
وہ نہیں تھا تو اسے یاد تو کر لینا تھا
کچھ اڑانوں کے لیے اپنے پروں کو پہلے
جنبش و جست سے آزاد تو کر لینا تھا
پھر ذرا دیکھتے تاثیر کسے کہتے ہیں
دل کو بھی شاملِ فریاد تو کر لینا تھا

کھلا بھی دیتے ہیں کلیاں مسل بھی دیتے ہیں

کِھلا بھی دیتے ہیں کلیاں مسل بھی دیتے ہیں
ہوا کے ہاتھ ارادہ بدل بھی دیتے ہیں
دل ایسی چیز کہ پلکوں سے چن لیا جائے
سنا ہے لوگ تو اس کو کچل بھی دیتے ہیں
یقین کی آخری سرحد پہ رہنے والے لوگ
کبھی کبھی تو لکھے کو بدل بھی دیتے ہیں

ٹکڑے جگر کے آنکھ سے بارے نکل گئے

ٹکڑے جگر کے آنکھ سے بارے نکل گئے
ارمان آج دل کے ہمارے نکل گئے
واحسرتا کہ لخت جگر تھے جو طفل اشک
آنکھوں کے سامنے سے ہمارے نکل گئے
شعلے ہمارے آہوں کے ایسے ہوئے بلند
ابروں سے آسماں کے ستارے نکل گئے

آتا تھا شکار گاہ سے شاہ

اقتباس از مثنوی گلزار نسیم

آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پسر کو ناگاہ
مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشم پوشی
دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کو بھائی

عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے

عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے 
آفتیں برستی ہیں، دل سکون پاتا ہے 
آزمائشیں اے دل! سخت ہی سہی لیکن 
یہ نصیب کیا کم ہے، کوئی آزماتا ہے 
عمر جتنی بڑھتی ہے، اور گھٹتی جاتی ہے 
سانس جو بھی آتا ہے لاش بن کے جاتا ہے 

Thursday 11 February 2016

دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں

دل جدا، مال جدا، جان جدا لیتے ہیں 
اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں 
میان سے لیتے ہیں جب قتل کو میرے تلوار
اپنی چالیں اسے پہلے وہ سکھا لیتے ہیں
مجلسِ وعظ میں جب بیٹھتے ہیں ہم میکش 
دخترِ رز کو بھی پہلو میں بٹھا لیتے ہیں 

جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں

جب خوبرو چھپاتے ہیں عارض نقاب میں
کہتا ہے حسن میں نہ رہوں گا حجاب میں
بے قصد لکھ دیا ہے گلہ اضطراب میں
دیکھوں کہ کیا وہ لکھتے ہیں خط کے جواب میں
بجلی چمک رہی ہے فلک پر سحاب میں
اب دختِ رز کو چین کہاں ہے حجاب میں

ایک دل ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا

ایک دل ہمدم مِرے پہلو سے کیا جاتا رہا 
سب تڑپنے، بلبلانے کا مزا جاتا رہا 
سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی 
وہ امنگیں مٹ گئیں،۔ وہ ولولہ جاتا رہا 
درد باقی غم سلامت ہے مگر اب دل کہاں
ہائے وہ غم دوست وہ درد آشنا جاتا رہا

جھونکا ادھر نہ آئے نسیم بہار کا

جھونکا ادھر نہ آئے نسیمِ بہار کا
نازک بہت ہے پھول چراغِ مزار کا
پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہُوا وہی روگ انتظار کا
شاخوں سے برگِ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں
زیور اتر رہا ہے عروسِ بہار کا

Wednesday 10 February 2016

تمہارے آخری خط کا جواب دینا ہے​

تمہارے آخری خط کا جواب دینا ہے​
نہ جانے روح کو کتنا عذاب دینا ہے​
اس اک نگاہ نے اک پَل میں کیا نہیں پوچھا​
کئی سوال ہیں، جن کا جواب دینا ہے​
گزر گیا ہے یہ دن تو کسی طرح، لیکن​
تمام رات، غموں کا حساب دینا ہے​

فقط دیوار نفرت رہ گئی ہے​

فقط، دیوارِ نفرت رہ گئی ہے​
یہی اس گھر کی صورت رہ گئی ہے​
کوئی شامل نہیں ہے قافلے میں​
قیادت ہی قیادت رہ گئی ہے​
کوئی کب ساتھ چلتا ہے کسی کے​
غرض کی ہی رفاقت رہ گئی ہے​

اداس بام ہے در کاٹنے کو آتا ہے​

اداس بام ہے، در کاٹنے کو آتا ہے​
تِرے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے​
خیالِ موسمِ گل بھی نہیں ستمگر کو​
بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے​
فقیہِ شہر سے انصاف کون مانگے گا​
فقیہِ شہر تو سر کاٹنے کو آتا ہے​

جسموں کے پگھلنے کا مہینا نہیں آیا​

جسموں کے پگھلنے کا مہینا نہیں آیا​
بھاگے ہیں بہت، پھر بھی پسینا نہیں آیا​
طوفانِ بلا خیز میں رہتے ہیں ہمیشہ​
ساحل پہ کبھی اپنا سفینا نہیں آیا​ 
حق بات پہ کیا زہر کا وہ جام پئیں گے​
اک ساغرِ مے بھی جنہیں پینا نہیں آیا​

اپنوں میں اب وہ پیار کا منظر نہیں رہا

اپنوں میں اب وہ پیار کا منظر نہیں رہا
حد ہے کہ میرا گھر بھی مِرا گھر نہیں رہا
اب جو بھی بات کرتا ہے کرتا ہے شر کے ساتھ
بچوں میں بھی وہ خیر کا جوہر نہیں رہا
ہر صبح اور شام ہے بس انتشار میں
ماحول گھر کا سچ ہے کہ بہتر نہیں رہا

اب تو کبھی کھڑکی کبھی در کاٹ رہا ہے

اب تو کبھی کھڑکی کبھی در کاٹ رہا ہے
موجود نہیں تم ہو، تو گھر کاٹ رہا ہے
ڈالا تھا قفس میں مجھے، یہ کم تھا بتاؤ
صیاد مِرے کس لیے پر کاٹ رہا ہے
ہے شامِ الم کی نہ شبِ غم کی شکایت
اے دوست! مجھے وقتِ سحر کاٹ رہا ہے

جس طرح وہ چاقو سے ثمر کاٹ رہا ہے

جس طرح وہ چاقو سے ثمر کاٹ رہا ہے
یوں کوئی مِرا قلب و جگر کاٹ رہا ہے
پرواز کا فن جس کو سکھایا کبھی میں نے
وہ آج مِری سمتِ سفر کاٹ رہا ہے
دنیا تو سرائے ہے مگر وہ بھی ہے فانی
کچھ روز یہاں عمر بشر کاٹ رہا ہے

Tuesday 9 February 2016

میری وفائیں یاد کرو گے

میری وفائیں یاد کرو گے
روؤ گے، فریاد کرو گے
ہم بھی ہنسیں گے تم پر اک دن
تم بھی کبھی فریاد کرو گے 
محفل کی محفل ہے غمگیں
کس کس کا دل شاد کرو گے

لذت درد نے ممنون مداوا نہ کیا

لذتِ درد نے ممنونِ مداوا نہ کِیا
وہ تو مائل تھے مگر ہم نے تقاضا نہ کِیا 
دل کو منظور تھی خوننابہ فشانی،۔ لیکن
میری آنکھوں نے تِرے راز کو رسوا نہ کِیا
یہ جبیں، خاکِ دیار سے رنگیں جو ہوئی
اس کو کعبے میں بھی آلودۂ سجدہ نہ کِیا 

ہوس کیا آرزو کیا مدعا کیا

ہوس کیا، آرزو کیا، مدعا کیا
فریبِ عشق کے سامان ہیں کیا کیا
کروں وحشت میں عرضِ مدعا کیا
مجھے کہنا تھا کیا کچھ، کہہ دیا کیا
پرانا چاہنے والا ہوں، مجھ سے
تکلف سازئ ناز و ادا کیا

جاؤ کہ اب وہ جوش تمنا نہیں رہا

جاؤ کہ اب وہ جوش تمنا نہیں رہا
آنکھیں رہیں پہ دیکھنے والا نہیں رہا
آبِ بقا بھی چشمِ خرد میں سراب ہے
میں تشنۂ فریبِ تمنا نہیں رہا
تم آج بھی وہی ہو جو کل تھے بجا درست
میں وہ نہیں رہا، بہت اچھا نہیں رہا

Sunday 7 February 2016

ہاتھ دنیا سے دھو کے دیکھتے ہیں

ہاتھ دنیا سے دھو کے دیکھتے ہیں
سب سے بیگانے ہو کے دیکھتے ہیں
یونہی موجوں کو کچھ قرار آئے
اپنی کشتی ڈبو کے دیکھتے ہیں
تجھ کو پا کر تو کچھ نہ ملا ہمیں
زندگی! تجھ کو کھو کے دیکھتے ہیں

آستینوں میں نہ خنجر رکھئے

آستینوں میں نہ خنجر رکھیے
دل میں جو ہے وہی لب پر رکھیے
ہونٹ جلتے ہیں تو جلنے دیجیے
اپنی آنکھوں میں سمندر رکھیے
اپنی پرچھائیں بھی ڈس لیتی ہے
ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھیے

سفینے کا ناخدا بن گیا ہے

سفینے کا ناخدا بن گیا ہے
خدا کی طرح بات کرنے لگا ہے
کوئی اس کی صورت بھی دکھلا دے اس کو
جو ہر شخص پر تبصرے کر رہا ہے
دھواں اٹھ رہا ہے مِرے آشیاں سے
زمانہ سمجھتا ہے ہے کالی گھٹا ہے

نگاہوں کا خسارہ کون دیکھے

نگاہوں کا خسارہ کون دیکھے
اسے مڑ کر دوبارہ کون دیکھے
یہی بہتر ہے اس میں ڈوب جائیں
محبت میں کنارہ کون دیکھے
یہاں ہر شخص خود میں گم ہوا ہے
یہاں جلنا ہمارا کون دیکھے

روتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں

روتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مَرے ہیں
کچھ خواب میرے عین جوانی میں مرے ہیں
روتا ہوں میں ان لفظوں کی قبروں پہ کئی بار
جو لفظ میری شعلہ بیانی میں مرے ہیں
کچھ تجھ سے یہ دوری بھی مجھے مار گئی ہے
کچھ جذبے میرے نقل مکانی میں مرے ہیں

روشنی دیتے گمانوں کی طرح ہوتا ہے

روشنی دیتے گمانوں کی طرح ہوتا ہے
حسن بھی آئینہ خانوں کی طرح ہوتا ہے
ہجر وہ موسمِ ویرانئ دل ہے جس میں
آدمی اجڑے مکانوں کی طرح ہوتا ہے
مات ہو سکتی ہے چالوں میں کسی بھی لمحے
عشق شطرنج کے خانوں کی طرح ہوتا ہے

جھلملاتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے

جھلملاتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے
تُو مجھے اجلے نظاروں کی طرح لگتا ہے
ڈال دیتے ہیں کئی درد کٹاؤ اس میں
دل بھی دریا کے کناروں کی طرح لگتا ہے
بے یقینی ہے کہ رہتے ہیں سراب آنکھوں میں
فائدہ مجھ کو خساروں کی طرح لگتا ہے

میں اگر راہ محبت میں بھی مارا جاتا

میں اگر راہِ محبت میں بھی مارا جاتا 
ہاں مگر اس کے لبوں سے تو پکارا جاتا
عشق دریا میں سفر اپنا جو جاری رہتا
دور تک ساتھ ہمارے یہ کنارا جاتا
دو گھڑی ہم ہی زمانے سے نہ شکوہ کرتے
اس محبت میں بھرم تو نہ ہمارا جاتا

ایک مہتاب تھا پانی میں نکل آیا ہے

ایک مہتاب تھا پانی میں، نکل آیا ہے
میرا کردار کہانی میں نکل آیا ہے
ایک بے سمت مسافر تھا، روانہ تھا کہیں
بس مِری سمت روانی میں نکل آیا ہے
کون مقتل کی طرف دیکھ رہا ہے ہنس کر
کون اس سمت جوانی میں نکل آیا ہے

وہ جو رستے میں مل گیا تھا مجھے

وہ جو رستے میں مل گیا تھا مجھے
میں یہ سمجھا کہ ڈھونڈتا تھا مجھے
ایسے تکتا تھا اجنبی کی طرح
جیسے مدت سے جانتا تھا مجھے
'اس نے پوچھا 'کسے بھٹکنا ہے
'میں نے فوراً ہی کہہ دیا تھا 'مجھے

زندہ رکھا گیا ہے نہ مارا گیا مجھے

زندہ رکھا گیا ہے نہ مارا گیا مجھے
پھر کس لیے زمیں پہ اتارا گیا مجھے
معلوم تھا کہ خار ہیں، پتھر ہیں ہر طرف
ان راستوں سے پھر بھی گزارا گیا مجھے

رات مہکی ہے گیسوؤں کی طرح

رات مہکی ہے گیسوؤں کی طرح
سارا منظر ہے گلرؤں کی طرح
اس کے اٹھنے کا اب سوال نہیں
گر پڑا ہے جو آنسوؤں کی طرح
شب ڈھلے دوڑتی ہے پرچھائیں
دل کی وادی میں آہوؤں کی طرح

زرد موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں

زرد موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں
پھر کسی زلف سیہ تاب کا سایا ڈھونڈیں
علم و دانش کے اجالے میں پریشاں ہے دماغ
آؤ! معصوم جہالت کا اندھیرا ڈھونڈیں
اس امنڈتے ہوئے چہروں کے سمندر میں کوئی
جو شناسا لگے، آؤ! وہ چہرا ڈھونڈیں

بے اعتباریوں کا بھروسا ملا مجھے

بے اعتباریوں کا بھروسا ملا مجھے
ہر شخص اپنے آپ سے سہما ملا مجھے
پھرتے ہیں لوگ ٹوٹی ہوئی شخصیت  لیے
جو شخص بھی ملا وہ ادھورا ملا مجھے
اے انقلاب! بول، تِرا کیا خیال ہے؟؟
صدیاں ہیں جس کی زد میں وہ لمحہ ملا مجھے

جسم کے قید سے اک روز گزر جاؤ گے

جسم کے قید سے اک روز گزر جاؤ گے
خشک پتوں کی طرح تم بھی بکھر جاؤ گے
تم سمندر کی رفاقت پر بھروسا نہ کرو
تشنگی لب پہ سجائے ہوئے مر جاؤ گے
وقت اس طرح بدل دے گا تمہارے خدوخال
اپنی تصویر جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے

دل کہ اک طوفاں زدہ کشتی بہ موج اشک غم

دل کہ اک طوفاں زدہ کشتی بہ موجِ اشکِ غم
جس کا افسانہ شکستہ بادباں پر ہے رقم
دل کہ گھر اللہ کا لیکن بتوں کی جلوہ گاہ
فطرتاً وہ کس قدر معصوم لیکن متہم
اور اس تہمت کے پس منظر میں ان جذبوں کی دھوم
جن کی ہر لغزش خود اپنی حد میں بے حد محترم

ذات اک مبہم تصور کیا وجود اور کیا عدم

ذات اک مبہم تصور، کیا وجود اور کیا عدم
عقل اِک اندھی پجارن کیا خدا اور کیا صنم
حاسہ اک بے حقیقت کیف کیا سمع و بصر
خاصہ اک پر فریب احساس کیا جود و کرم
مادہ اک نا رسیدہ جسم کیا ارض و سما
ماہیت اک ناشنیدہ اسم کیا خلق و قدم

معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے

معمول پہ ساحل رہتا ہے، فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
طوفاں جو ڈبو دے کشتی کو، کشتی میں ہی اکثر ہوتا ہے
جو فصلِ خزاں میں کانٹوں پر رقصاں و غزلخواں گزرے تھے
وہ موسمِ گل میں بھول گئے، پھولوں میں بھی خنجر ہوتا ہے 
اب دیکھ کے اپنی صورت کو ایک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں، آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے

شمع کی طرح شب غم میں پگھلتے رہیے

شمع کی طرح شبِ غم میں پگھلتے رہیے 
صبح ہو جائے گی جلتے ہیں تو جلتے رہیے 
وقت چلتا ہے اڑاتا ہوا لمحات کی گرد 
پیرہن فکر کا ہے، روز بدلتے رہیے 
آئینہ سامنے آئے گا، تو سچ بولے گا 
آپ چہرے جو بدلتے ہیں، بدلتے رہیے

ترک محبت اپنی خطا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

ترکِ محبت اپنی خطا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
وہ اب بھی پابندِ وفا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
دروازے پر آہٹ سن کر اس کی طرف کیوں دھیان گیا
آنے والی صرف ہوا ہو،۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے
حالِ پریشاں سن کر میرا آنکھ میں اس کی آنسو ہیں
میں نے اس سے جھوٹ کہا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے

نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے

نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے
میں اک جام ہوں کس کس کے ہونٹوں تک پہنچوں
غضب کی پیاس لیے ہر بشر لگے ہے مجھے 

جھونکا تمہارے پیار کا چھو کر گزر گیا

گیت

جھونکا تمہارے پیار کا چھو کر گزر گیا
آگ لگاتی خوشبوئیں سانسوں میں بھر گیا

یہ ہے فریبِ آئینہ یا سامنے تم آ گئے
رنگ تمہارے حسن کے آنکھوں میں یوں سما گئے
پانی میں جس طرح کوئی شعلہ اتر گیا

ان چھوئے ساز کا ان سنا گیت ہے

ان چھُوئے ساز کا ان سنا گیت ہے
جانے تُو کس کا چھیڑا ہوا گیت ہے

گل کھلاتی ہوئی رنگ بھرتی ہوئی
تُو ہے یا زندگی رقص کرتی ہوئی
خامشی بھی تیری، پیار کا گیت ہے
جانے تُو کس کا چھیڑا ہوا گیت ہے

جھکی نگاہیں چور میں جانوں

گیت

جھکی نگاہیں چور، میں جانوں
تیرے من میں ناچ رہے ہیں
آرزوؤں کے مور، میں جانوں

رس گھولے کوئی جیون میں
چاہت کے نازک بندھن میں
بندھی ہے تیری ڈور، میں جانوں

راتوں کو جاگوں اس کی لگن میں

راتوں کو جاگوں اس کی لگن میں
خوشبو ہے جس کی میرے بدن میں

نیند ہے گہری
رات سنہری
آنکھیں ہیں بوجھل
سانسوں میں ہلچل
مانگ میں افشاں تارے گگن میں

کون سا ہمدم ہے تیرے عاشق بے دم کے پاس

کون سا ہمدم ہے تیرے عاشقِ بے دم کے پاس
غم ہے اس کے پاس ہمدم اور وہ ہے دم کے پاس​
ہم کو کیا ساقی، جو تھا جامِ جہاں بیں جم کے پاس
تیرا جامِ بادہ ہو اور تُو ہو اس پُر غم کے پاس
خط کہاں آغاز ہے پشتِ لبِ دلدار پر
ہیں جنابِ خضر آئے عیسٰئ مریم کے پاس​

کيا مد نظر تم کو ہے ياروں سے تو کہیے

کيا مدِ نظر تم کو ہے، ياروں سے تو کہیے
گر منہ سے نہيں کہتے اشاروں سے تو کہیے
حالِ دل بے تاب کہا جائے جو کچھ بھی
گر کہيے نہ لاکھوں سے ہزاروں سے تو کہیے
موقوف ہے گر دل کا شکار آن و ادا پر
تو پہلے کچھ ان مير شکاروں سے تو کہیے

Saturday 6 February 2016

معلوم جو ہوتا ہميں انجام محبت

معلوم جو ہوتا ہميں انجامِ محبت
ليتے نہ کبھی بھول کے ہم نامِ محبت
ہيں داغِ محبت، درم و دامِ محبت
مژدہ تجھے اے خواہشِ انعامِ محبت
نے زہد سے ہے کام نہ زاہد سے کہ ہم تو
ہيں بادہ کشِ عشق و مئے آشامِ محبت

جان کے جی ميں سدا جينے کا ارماں ہی رہا

جان کے جی ميں سدا جينے کا ارماں ہی رہا
دل کو بھی ديکھا کيے، یہ بھی پريشاں ہی رہا
بعد مردن بھی خيالِ چشمِ فتاں ہی رہا
سبزۂ تربت مِرا، وقف گلستاں ہی رہا
ميں ہميشہ عاشقِ پيچيدہ موباں ہی رہا
خاک پر روئيدہ ميرے عشق پيچاں ہی رہا​

لپٹی ہوئی قدموں سے وہ راہگزر بھی

لپٹی ہوئی قدموں سے وہ راہ گزر بھی
ایک ایک قدم جس میں ہے منزل بھی سفر بھی
افسانہ در افسانہ ہے گویا وہ نظر بھی
کچھ کہنے کو ہے جیسے بعنوانِ دگر بھی
ہر سانس میں آتی ہے عجب دل کی خبر بھی
کچھ ساکن و ساکت بھی ہے کچھ زیر و زبر بھی

بلائے ناگہانی بھی پیام زندگانی بھی

بلائے ناگہانی بھی،۔ پیامِ زندگانی بھی
قیامت ہے قیامت یہ تِری اٹھتی جوانی بھی
مٹا کر ہم کو مٹ جاتا ہے غم بھی شادمانی بھی
ازل ہی سے ہے یہ دنیا حقیقت بھی کہانی بھی
پہاڑوں کی ہے سختی تو گزر اس میں ہے دریا کا
ملا وہ دل محبت کو جو پتھر بھی ہے پانی بھی

فسردہ پا کے محبت کو مسکرائے جا

فسردہ پا کے محبت کو، مسکرائے جا
اب آ گیا ہے تو، اِک آگ سی لگائے جا
اس اضطراب میں رازِ فروغ پنہاں ہے
طلوعِ صبح کی مانند تھرتھرائے جا
جہاں کو دے گی محبت کی تیغ آبِ حیات
ابھی کچھ اور اسے زہر میں بجھائے جا

دل افسردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں

دل افسردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
کسی کا درد اٹھے جن میں وہ راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دورئ قربت نما نکلی
کہ تجھ سے مل کے بھی تجھ سے ملاقاتیں نہیں ہوتیں
یہ دورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل  
برستے ہیں، مگر اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں

ہمیں سب اہل ہوس ناپسند رکھتے ہیں

ہمیں سب اہلِ ہوس ناپسند رکھتے ہیں
کہ ہم نوائے محبت بلند رکھتے ہیں
اسی لیے تو خفا ہیں ستم شعار کہ ہم
نگاہِ نرم و دلِ درد مند رکھتے ہیں
اگرچہ دل وہی رجعت پسند ہے اپنا
مگر زبان ترقی پسند رکھتے ہیں

کھڑے ہیں دل میں جو برگ و ثمر لگائے ہوئے

کھڑے ہیں دل میں جو برگ و ثمر لگائے ہوئے
تمہارے ہاتھ کے ہیں یہ شجر لگائے ہوئے
بہت اداس ہو تم، اور میں بھی بیٹھا ہوں
گئے دنوں کی کمر سے کمر لگائے ہوئے
ابھی سپاہِ ستم خیمہ زن ہے چار طرف
ابھی پڑے رہو زنجیرِ در لگائے ہوئے

لے کے ہمراہ چھلکتے ہوئے پیمانے کو

لے کے ہمراہ چھلکتے ہوئے پیمانے کو
آن پہنچی ہے یہ ساعت بھی گزر جانے کو
ہاں اسے رہگزرِ خندۂ گل کہتے ہیں
ہاں یہی راہ نکل جاتی ہے ویرانے کو
فائدہ بھی کوئی جل جل کے مَرے جانے سے
کون اس شمع سے روشن کرے پروانے کو

عشق میں کون بتا سکتا ہے

عشق میں کون بتا سکتا ہے
کس نے کس سے سچ بولا ہے
ہم تم ساتھ ہیں اس لمحے میں
دکھ سکھ تو اپنا اپنا ہے
مجھ کو تو سارے ناموں میں
تیرا نام اچھا لگتا ہے

احسان کسی شخص کا سر پر نہیں رکھتے

احسان کسی شخص کا سر پر نہیں رکھتے
ہم ایسے تونگرہیں جو نوکر نہیں رکھتے
سرگرم سفر رہتے ہیں بستر نہیں رکھتے
کیا گھر کا پتہ دیں جو کوئی گھر نہیں رکھتے
لڑتے ہیں کڑی دھوپ سے دیوانے تمہارے
 سر پر کوئی مانگی ہوئی چادر نہیں رکھتے

کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے

کیا جرم ہمارا ہے بتا کیوں نہیں دیتے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
کیا جلوۂ معنی ہے دکھا کیوں نہیں دیتے
دیوارِ حجابات گِرا کیوں نہیں دیتے
تم کو تو بڑا ناز مسیحائی تھا یارو
بیمار ہے ہر شخص دوا کیوں نہیں دیتے

معاذ اللہ معاذ اللہ یہ دور دلآزاری

معاذ اللہ,  معاذ اللہ, یہ دورِ دل آزاری
نہ دلجوئی نہ دلداری نہ ہمدردی نہ غمخواری
نہ جانے کس طرح ہو گا ہمارے درد کا درماں
بڑھے جاتے ہیں چارہ گر بڑھی جاتی ہے بیماری
خوشامد وہ بڑا فن ہے جو سب کو رام کرتا ہے
ہر اک دربار اس کا ہے، جس کا راگ درباری

ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں

گیت/غزل

ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو، میں نشے میں ہوں
جو چاہو میرے یار کرو، میں نشے میں ہوں
اب بھی دلا رہا ہوں یقینِ وفا،۔ مگر
میرا نہ اعتبار کرو، میں نشے میں ہوں
اب تم کو اختیار ہے، اے اہلِ  کارواں
جو راہ اختیار کرو، میں نشے میں ہوں

لوگ تیری آنکھوں کی مستیاں خریدیں گے

لوگ تیری آنکھوں کی مستیاں خریدیں گے
گیسوؤں سے ساون کی بدلیاں خریدیں گے
کہکشاں اتاریں گے مانگ سے ستاروں کی
تیرے ہر تبسم کی بجلیاں خریدیں گے 
بے اثر ہوئے گھنگھرو، اب وہ بیچ کر پائل
عاشقوں کے پیروں کی بیڑیاں خریدیں گے

گجرا مہکا کنگنا کھنکا کھن کھن آدھی رات کے بعد

گجرا مہکا، کنگنا کھنکا کھن کھن آدھی رات کے بعد
ٹوٹ گئے سب لاج حیا کے بندھن آدھی رات کے بعد
سوچ رہی ہے آس کی ماری بِرہن آدھی رات کے بعد
جلتا ہے کیوں آگ کے جیسے تن من آدھی رات کے بعد
دروازے پر گرتی ہے جب چلمن آدھی رات کے بعد
سُونا ہو جاتا ہے گھر کا آنگن آدھی رات کے بعد

بے چینیوں کو گھول کے اپنے گلاس میں

بے چینیوں کو گھول کے اپنے گلاس میں
ہم لوگ زہر پیتے ہیں جینے کی آس میں
کچھ لوگ آگ سے بھی بجھاتے ہیں پیاس کو
کچھ لوگ ہیں جو خون بھی پیتے ہیں پیاس میں
اوپر سے زندگی ہے بہت خوشنما، مگر
اندر سے کتنے زخم چھپے ہیں لباس میں

اس برس میں کوئی پیمان نبھائے خوشبو

اس برس میں کوئی پیمان نبھائے خوشبو 
اب کے آئے، کوئی پیغام سنائے خوشبو 
رات پھر یاد کے تارے سرِ افلاک آئے 
رات پھر خواب تِرے شہر سے لائے خوشبو 
ٹوٹ جائے نہ طلسمِ شبِ تاریک کہیں 
میرے آنگن میں ستارے نہ سجائے خوشبو 

آنکھ کیا تجھ سے لڑائی اپنی

آنکھ کیا تجھ سے لڑائی اپنی
ہو گئی نیند پرائی اپنی
کیسے موسم تھے کہ سب اپنے تھے
کتنی مشہور تھی گویائی اپنی
ہم نے کب تجھ سے خدائی مانگی
تُو بنے اپنا تو خدائی اپنی

دھنک کی ساری چمک بادلوں کے نام ہوئی

دھنک کی ساری چمک بادلوں کے نام ہوئی 
بچی جو ایک کرن، راہ میں تمام ہوئی 
نہ کوئی خواب ہی ٹوٹا، نہ رنگ ہی بکھرا 
سفر ہی ختم ہوا، بات پھر بھی عام ہوئی 
بہت دنوں کی مسافت کے بعد یاد آیا 
تمہارے شہر سے نکلے ہی تھے کہ شام ہوئی 

کیا خطا ہو گئی فضاؤں سے

کیا خطا ہو گئی فضاؤں سے
آگ برسی ہے کیوں گھٹاؤں سے
اپنی بستی کے سب چراغوں کو
ہم بچاتے رہے ہواؤں سے
ہم کو صحرا عبور کرنا ہے
کیا غرض دھوپ اور چھاؤں سے

ورنہ رکنا تھا کہاں ہم نے ترے گاؤں میں

ورنہ رکنا تھا کہاں ہم نے تِرے گاؤں میں
پیڑ نے کھینچ لیا خود ہی ہمیں چھاؤں میں
وہ کسی روز سمندر بھی بنا ہی لے گا
جو ملا سکتا ہو دریاؤں کو دریاؤں میں
میں تو افلاک میں پرواز کِیا کرتا ہوں
تیری دھرتی تو بہت کم ہے مِرے پاؤں میں

نہ جانے کیسی مری جاں میں آگ جلتی ہے

نہ جانے کیسی مِری جاں میں آگ جلتی ہے
کہ سانس لوں تو گریباں میں آگ جلتی ہے
دکھا رہا ہے مجھے کیوں کسی چراغ کی لَو
ابھی تو دِیدۂ حیراں میں آگ جلتی ہے
سنبھال رکھا ہے کیا کسی کا غم میں نے
کہ اشک اشک سے مِژگاں میں آگ جلتی ہے

گلہ گزار نہ ہو گر ہوا نہيں آتی

گلہ گزار نہ ہو، گر ہوا نہيں آتی
زميں ہر ايک جگہ زيرِ پا نہيں آتی
اگر زميں سے ہميں رزق مل نہيں سکتا
تو کيوں فلک سے ہماری غذا نہيں آتی
تجھے ميں بھیج تو سکتا ہوں دھوپ ميں چھاؤں
مگر بدن پہ یہ پوری قبا نہيں آتی

تھک گيا جو بھی یہ طے راہگزر کرتا ہے

منقبت

تھک گيا جو بھی یہ طے راہگزر کرتا ہے
کون تيری طرح نيزے پہ سفر کرتا ہے
آج بھی ميرے تعاقب ميں ہے اک ايسا يزيد
پانی مانگوں تو بدن خون سے تر کرتا ہے
کربلا! اپنے تقدس کو سنبھالے رکھنا
خون ايسا ہے کہ ذرات کو زر کرتا ہے

دل میں تھا جو بول دیا

دل میں تھا جو بول دیا
لفظ بندھا تھا کھول دیا
میں نے اپنے اندر کا
زہر ہوا میں گھول دیا
جسے ضرورت پڑی اسے
دل میں نے بے مول دیا

بچھڑنے پر مجھے اکسا رہی ہے

بچھڑنے پر مجھے اکسا رہی ہے
وہ اب کتنا بدلتی جا رہی ہے
کسی کی یاد میری چشمِ تر کو
مسلسل رت جگے پہنا رہی ہے
سنبھالوں کیسے اس ریشم بدن کو
وہ ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے

جانے والوں سے پیار مت کرنا

جانے والوں سے پیار مت کرنا
اب میرا انتظار مت کرنا
مدتوں بعد مسکرایا ہوں
اب مجھے سوگوار مت کرنا
جو بظاہر دکھائی دے خاموش
ایسے دریا کو پار مت کرنا

میں نے جب وصل کا سوال کیا

میں نے جب وصل کا سوال کیا
اس نے اس بات کا ملال کیا
خوش رہے یا خدا! وہ جس نے مجھے
رونے والوں میں بے مثال کیا
ایک مدت کے بعد پھر میں نے 
درد سے رابطہ بحال کیا

Friday 5 February 2016

اس حسن ہجریاب کا طرفہ جمال دیکھ

اس حسنِ ہجریاب کا طرفہ جمال دیکھ
آنکھوں میں پھیلتا ہوا رنگِ ملال دیکھ
تُو دیکھتا نہیں تھا مِرے حال کی طرف
اب گردشوں میں گھوم، زمانے کی چال دیکھ
کچھ پرکشش نہیں ہیں جوابوں کی صورتیں
اے صاحبِ نگاہ! تُو حسنِ سوال دیکھ

مرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے

مِرا نہیں تو وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے
اُسے کہو، کہ تعلق کو پھر بحال کرے
ملے تو اتنی رعایت عطا کرے مجھ کو
مِرے جواب کو سن کر کوئی سوال کرے
کلام کر کہ مِرے لفظ کو سہولت ہو
تِرا سکوت، مِری گفتگو محال کرے

بھولو کبھی نہ دید کا فن دیکھتے رہو

بھولو کبھی نہ دید کا فن دیکھتے رہو
گر بھی پڑو تو خاکِ چمن دیکھتے رہو
اپنی اڑائی دھول نہ اپنے ہی سر پڑے
چلتے ہوئے ہوا کا چلن دیکھتے رہو
اس کی طرف سے آپ ہی خود کو پکار کر
پہروں پھر اس صدا کا بدن دیکھتے رہو

جب بھی چپکے سے نکلنے کا ارادہ باندھا

جب بھی چپکے سے نکلنے کا ارادہ باندھا
مجھ کو حالات نے پہلے سے زیادہ باندھا
چلتے پھرتے اسے بندش کا گماں تک نہ رہے
اس نے انسان کو اس درجہ کشادہ باندھا
کتنی بھی تیز ہوئی حرص و ہوس کی بارش
ہم نے اک تارِ توکل سے لبادہ باندھا

تمہاری یاد میرے دل سے جب گزرتی ہے

تمہاری یاد میرے دل سے جب گزرتی ہے
تو ہولے ہولے کوئی بانسری سی بجتی ہے
جھلسی سوکھتی ان زرد کھیتیوں سے پرے
گھٹا کیوں آج سرِ شام سے برستی ہے
اتر رہی ہے یہ رات میرے آنگن میں
یا بال کھولے کوئی اپسرا اترتی ہے

وقت پھر وار کر نہ جائے کہیں

وقت پھر وار کر نہ جائے کہیں
خواب آنکھوں میں مر نہ جائے کہیں
میری آنکھوں پہ تیرے ہاتھ کا لمس
یہ بھی سپنا بکھر نہ جائے کہیں 
تجھ کو یہ خوف کیوں ہے اے جاناں
تُو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

میرا چرچا جو گھر گھر میں ہوا ہے

میرا چرچا جو گھر گھر میں ہوا ہے
یہ ناکردہ گناہوں کی سزا ہے
گزارے تھے جو تیرے ساتھ لمحے
میرا دل ان کو اکثر ڈھونڈھتا ہے
ہوئی ہے برہنہ شاخِ تمنا
جدا یوں آخری پتہ ہوا ہے

اک خواب نا تمام کو تعبیر دے گیا

اک خوابِ نا تمام کو تعبیر دے گیا 
یہ کون مجھ کو ریشمی زنجیر دے گیا
ٹکڑے ہوئے ہیں رات کی ناگن کے دیکھیے
دستِ صبح میں کرنوں کی شمشیر دے گیا
وہ نرم نرم لہجہ میں اس کا پکارنا
کتنی میری دعاؤں کو تاثیر دے گیا

معصومیت بھی ہو ہنسی بے ساختہ بھی ہو

معصومیت بھی ہو ہنسی بے ساختہ بھی ہو
اس عہدِ گمشدہ سے کوئی رابطہ بھی ہو
مایوسیوں کے اندھے گھنے جنگلوں کے بیچ 
امید کی کرن کا کوئی راستہ بھی ہو
آنکھوں میں خواب ہونٹوں پہ لے کر دعا کے پھول
اپنے خدا سے کوئی مجھے مانگتا بھی ہو

منجمد خون میں ہلچل کر دے

منجمد خون میں ہلچل کر دے
مجھ کو چھو اور مکمل کر دے
کتنی پیاسی ہیں یہ بنجر آنکھیں
ابر زادے! انہیں جل تھل کر دے
میں نے وہ درد چھپا رکھا ہے
جو تیرے حسن کو پاگل کر دے

یہ جو اک سیل فنا ہے مرے پیچھے پیچھے

یہ جو اِک سَیلِ فنا ہے، مِرے پیچھے پیچھے 
میرے ہونے کی سزا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
آگے آگے ہے، مِرے دِل کے چٹَخنے کی صدا 
اور مِری گَردِ اَنا ہے، مِرے پیچھے پیچھے
زندگی تھک کے کسی موڑ پہ رُکتی ہی نہیں 
کب سے یہ آبلہ پا ہے، مِرے پیچھے پیچھے 

يہ زندگی کا قرينہ کرم اسی کا ہے

يہ زندگی کا قرينہ، کرم اسی کا ہے
خوشی تو خير اسی کی ہے، غم اسی کا ہے
تو کيا يہ معجزہ کم ہے جو کوئی غور کرے
کسی کا روضہ ہو، ليکن علم اسی کا ہے
لکھے ہوئے ميں لکھا ہے، جو پڑھ سکو تو پڑھو
يہ لو اسی کی ہے لوگو،، قلم اسی کا ہے

ادھر بھی تباہی ادھر بھی تباہی

اِدھر بھی تباہی اُدھر بھی تباہی
کہاں جائیں آخر محبت کے راہی
مِرا عشق کیا ہے تِری دل نوازی
تِرا حسن کیا ہے مِری خوش نگاہی
وہی حُسن والے وہی ناز و غمزہ
وہی اہلِ دل ہیں، وہی کج کلاہی

چارہ گری کی گر تمہیں فرصت نہیں رہی

چارہ گری کی گر تمہیں فرصت نہیں رہی
دیدار کی ہمیں بھی ضرورت نہیں رہی
یوں ہی نہیں ہے جھوٹ کا بازار اتنا گرم
سچ بولنے کی ہم میں بھی جرأت نہیں رہی
بستی وہی ہے گھر بھی شریفوں کا ہے وہی
لیکن کسی بھی گھر میں شرافت نہیں رہی

تنہائی بھی عذاب ہے محفل بھی دوستو

تنہائی بھی عذاب ہے محفل بھی دوستو
آرام کی نہیں کوئی منزل بھی دوستو
موجِ بلا سے بچ کے کہاں جا رہے ہو تم
 موجِ بلا کی زد میں ہے ساحل بھی دوستو
 کیا جانے کتنی بار لٹا،۔ اور پھر بسا 
دلی سے کم نہیں ہے مِرا دل بھی دوستو

وطن کا نگہبان بنایا تھا جن کو

وطن کا نگہبان بنایا تھا جن کو
وہی آبروئے وطن لوٹتے ہیں
اشاروں پہ رہبر کے ہوتا ہے سب کچھ
 غلط ہے ہمیں راہ زن لوٹتے ہیں
کوئی موجِ طوفاں انہیں بھی ڈبو دے
 جو ناموسِ گنگ و جمن لوٹتے ہیں

Thursday 4 February 2016

نظریں چرا لو بند رکھو کان چپ رہو

نظریں چرا لو، بند رکھو کان، چپ رہو
سب لوگ چپ ہے تم بھی مِری جان چپ رہو
سچ بات کہہ کے صاحبو! شرمندگی نہ لو
سمجھیں گے لوگ آپ کو نادان، چپ رہو
ہر چیخ بے اثر ہے، ہر اک ظلم بے صدا
دے گا نہیں کسی پہ کوئی دھیان، چپ رہو

پھول کی طرح برستے ہیں ترے شہر کے لوگ

پھول کی طرح برستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
یا مِرے حال پہ ہنستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
کچھ تو احساس انہیں اپنی ملاقات کا ہے
ہم پہ آواز تو کستے ہیں تِرے شہر کے لوگ
میں بھٹکتا ہوں تِرے شہر کی ان سڑکوں پر
اور اس شہر میں بستے ہیں تِرے شہر کے لوگ

دعاؤں میں ہو گا اثر دھیرے دھیرے

دعاؤں میں ہو گا اثر دھیرے دھیرے
ملے گی نظر سے نظر دھیرے دھیرے
ملا کر نظر کیسے دامن بچانا
تمہیں آ گیا ہے ہنر دھیرے دھیرے
کوئی زخم دو، دل دکھاؤ، ستاؤ
اجازت ہے تم کو مگر دھیرے دھیرے

احساس آرزوئے بہاراں نہ پوچھیے

احساسِ آرزوئے بہاراں

احساسِ آرزوئے بہاراں نہ پوچھیے
دل میں نہاں ہے آتشِ سوزاں نہ پوچھیے
عید آئی، اور عید کا سامان نہ پوچھیے
مفلس کی داستاں کسی عنواں نہ پوچھیے
ہے آج وہ با حالِ پریشاں نہ پوچھیے

تیرا غم دور ہے یا نزد رگ جاں کوئی

تیرا غم دور ہے، یا نزدِ رگِ جاں کوئی
موت اور زیست میں ہو فرق نمایاں کوئی
اے جنوں! یہ تو ہے دراصل وفا کی توہین 
ہاتھ رک جائے اگر تا حدِ امکاں کوئی 
برف سمجھوں گا میں سورج کی تمازت کو، اگر 
کاش مل جائے تِرا سایۂ داماں کوئی 

یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا

یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا
جو آشنا تھا کبھی،۔ آج اجنبی سا لگا
وہ ایک سایہ جو بے حس تھا مردہ کی مانند
قریب آیا،۔ تو اک عکسِ زندگی سا لگا
خود اپنی لاش لیے پھر رہا تھا کاندھوں پر 
وہ آدمی تو نہ تھا، پھر بھی آدمی سا لگا

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے

یہ کیا ہوا کہ ہر اک رسم و راہ توڑ گئے 
جو میرے ساتھ چلے تھے، وہ ساتھ چھوڑ گئے
وہ آئینے, جنہیں ہم سب عزیز رکھتے تھے 
وہ پھینکے وقت نے پتھر, کہ توڑ پھوڑ گئے
ہمارے بھیگے ہوئے دامنوں کی شان تو دیکھ
فلک سے آئے ملک اور گُنہ نچوڑ گئے

Wednesday 3 February 2016

دشمنی ميں کچھ نہ کچھ تکرار کر سکتا ہوں ميں

دشمنی ميں کچھ نہ کچھ تکرار کر سکتا ہوں ميں
سامنے مت آ، کہ تجھ پہ وار کر سکتا ہوں ميں
يہ تو يونہی ايک دريا ميرے پیچھے آ گيا
ورنہ صحرا کو اکيلے پار کر سکتا ہوں ميں
کيوں دکھاتا ہے مجھے تُو دوسری دنيا کے خواب
آدمی ہوں،۔ آدمی سے پيار کر سکتا ہوں ميں

اچھا ہے کسی اور نظارے سے جڑی ہے

اچھا ہے کسی اور نظارے سے جڑی ہے
دنیا کی طلب یوں بھی خسارے سے جڑی ہے
اس بار کوئی اور تماشا ہے گلی میں
اک آنکھ جو کھڑکی کے اشارے سے جڑی ہے
میں اس لیے دنیا پر بھروسا نہیں کرتا
مٹی کی یہ دیوار بھی گارے سے جڑی ہے

اسی لیے تو بہت تلخ ہے زباں میری

اسی لیے تو بہت تلخ ہے زباں میری
کہ بات سنتا نہیں ہے تیرا جہاں میری
میں اپنے پاؤں پہ چلنا ہی بھول گیا ہوں
زمیں کھینچتا ہے جب سے آسماں میری
ذرا سا بات کا لہجہ بدل گیا ہے تو کیا
نئی نہیں ہے تیرے واسطے زباں میری

یوں پاس بوالہوس رہیں چشم غضب سے دور

 یوں پاس بوالہوس رہیں چشمِ غضب سے دور​

یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور​

دیوانہ میں نہیں کہ انا لیلیٰ لب پہ آئے​

باتیں خلافِ وضع ہیں اہلِ ادب سے دور​

مجھ کو سنا کے کہتے ہیں ہمدم سے، یاد ہے​

اک آدمی کو چاہتے تھے ہم بھی اب سے دور

اٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستان بادہ فروش

 اٹھے نہ چھوڑ کے ہم آستانِ بادہ فروش

طلسمِ ہوش ربا ہےدکانِ بادہ فروش

کھلا جو پردہ روئے حقائقِ اشیاء

کھلی حقیقتِ رازِ نہانِ بادہ فروش

فسردہ طینتی و کاہلی سے ہم نے کبھی

شباب میں بھی نہ دیکھی دکانِ بادہ فروش

فرق پڑتا ہے تیری شان میں کیا

 فرق پڑتا ہے تیری شان میں کیا

جان دے دیں تجھے لگان میں کیا

جاں کنی سے دلا نجات ہمیں

آخری تیر تھا کمان میں کیا

خاک اڑنے لگی زمینوں کی

جھانکتا ہے تُو آسمان میں کیا

غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل

 غافل نہ رہیو اس سے تو اے یار آج کل

مرتا ہے تیرے عشق کا بیمار آج کل

کیا جانیں کیا کرے گا وہ خونخوار آج کل

رکھتا بہت ہے ہاتھ میں تلوار آج کل

جو ہے سو آہ عشق کا بیمار ہے دِلا

پھیلا ہے بے طرح سے یہ آزار آج کل

جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئے گا

 جو چلن چلتے ہو تم کیا اس سے حاصل ہوئے گا

خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا

کیوں نہ کہتے تھے دِلا! شیریں لبوں کے منہ نہ لگ

ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا

چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال

یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا

Tuesday 2 February 2016

تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہوں میں

گیت

تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں

جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے
مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے
مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں

صبر ہر بار اختیار کیا

صبر ہر بار اختیار کیا
ہم سے ہوتا نہیں، ہزار کیا
عادتاً تم نے کر لیے وعدے
عادتاً ہم نے اعتبار کیا
ہم نے اکثر تمہاری راہوں میں
رک کے اپنا ہی انتظار کیا

کچھ روز سے رنجیدہ ہے

کچھ روز سے رنجیدہ ہے
یہ بات بڑی سنجیدہ ہے
چل دل کی راہ سے ہو کے چلیں
دلچسپ ہے، اور پیچیدہ ہے
ہم عمر خدا ہوتا ہے کوئی
جو بھی ہے، عمر رسیدہ ہے

رخصت جیسے جھنا کے چٹخ جائے کسی ساز کا تار

رخصت

جیسے جھنا کے چٹخ جائے کسی ساز کا تار
جیسے ریشم کی کسی ڈور سے انگلی کٹ جائے
ایسے اک ضرب سی پڑتی ہے کہیں سینے میں
کھینچ کر توڑنی پڑ جاتی ہے جب تجھ سے نظر
تیرے جانے کی گھڑی، سخت گھڑی ہے جاناں 

گلزار

قیمت دل کا مجھے اندازہ کچھ ہو تو سہی

قیمتِ دل کا مجھے اندازہ کچھ ہو تو سہی
پھر چرا لینا نگاہیں،۔ پہلے دیکھو تو سہی
کچھ نظر آتا تو ہے وہم و یقیں کے درمیاں
یہ میرا سایہ ہے یا میں ہوں، بتاؤ تو سہی
پل رہا ہو لائقِ تعبیر شاید کوئی خواب
میری ان اجڑی ہوئی آنکھوں میں جھانکو تو سہی

کتاب زندگی اس گھر کی دیواروں پہ لکھ آئے

کتابِ زندگی اس گھر کی دیواروں پہ لکھ آئے
اب اس کے بعد باقی کیا ہے موضوعِ سخن اختر
جو تھیں کچھ دھڑکنیں دل میں سب اس کے نام کر آئے
کوئی ایسے سے کرتا کیا حساب جان و تن اختر
گئی ہونگی وہ نظریں دور تک میرے تعاقب میں
کلیجے سے لپٹ کر آ گئی ہے اک کِرن اختر

تیرے غم نے نہ اگر دل کو سنبھالا ہوتا

تیرے غم نے نہ اگر دل کو سنبھالا ہوتا
زندگی نے تو مجھے مار ہی ڈالا ہوتا
مل نہ جاتا تِری دیوار کا سایہ جو ہمیں
وہی ہم ہوتے، وہی پاؤں کا چھالا ہوتا
اس کا ملنا کوئی دشوار نہیں تھا، لیکن
خود کو گم کر کے کوئی ڈھونڈنے والا ہوتا

مدت سے لاپتہ ہے خدا جانے کیا ہوا

مدت سے لاپتہ ہے، خدا جانے کیا ہوا
پھرتا تھا ایک شخص تمہیں پوچھتا ہوا
یہ زندگی تھی، آپ تھے یا کوئی خواب تھا
جو کچھ تھا ایک لمحے کو بس سامنا ہوا
ہم نے تِرے بغیر بھی جی کر دکھا دیا
اب یہ سوال کیا ہے کہ پھر دل کا کیا ہوا

Monday 1 February 2016

غم ہے یا خوشی ہے تو

غم ہے یا خوشی ہے تُو
میری زندگی ہے تُو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تُو
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تُو

دل میں اور تو کیا رکھا ہے

دل میں اور تو کیا رکھا ہے
تیرا ہی درد چھپا رکھا ہے
اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دِیپ جلا رکھا ہے
دھوپ سے چہروں نے دنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے

عشق میں جیت ہوئی یا مات

عشق میں جیت ہوئی یا مات
آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات
یوں آیا وہ جانِ بہار
جیسے جگ میں پھیلے بات
رنگ کھلے صحرا کی دھوپ
زلف گھنے جنگل کی رات

پھر لہو بول رہا ہے دل میں

پھر لہو بول رہا ہے دل میں
دم بدم کوئی صدا ہے دل میں
تاب لائیں گے نہ سننے والے
آج وہ نغمہ چھڑا ہے دل میں
ہاتھ مَلتے ہی رہیں گے گلچیں
آج وہ پھول کھلا ہے دل میں

جہاں تک ہو گا جب تک ہو گا دل بہلائیں گے ہم بھی

جہاں تک ہو گا جب تک ہو گا دل بہلائیں گے ہم بھی
کسی دن تو تجھے بھولے سے یاد آ جائیں گے ہم بھی
کریں گے ہم کہاں تک دور کی آواز کا پیچھا
ابھی اک موڑ ایسا آئے گا، پچھتائیں گے ہم بھی
کہیں بھی زیست کے آثار دکھلائی نہیں دیتے
یہی صورت رہی جو چند دن، گھبرائیں گے ہم بھی

تجھ کو کھو کر کیوں یہ لگتا ہے کہ کچھ کھویا نہیں

تجھ کو کھو کر کیوں یہ لگتا ہے کہ کچھ کھویا نہیں
خواب میں آئے گا تُو، اس واسطے سویا نہیں
آپ بیتی پر جہاں ہنسنا تھا جی بھر کے ہنسا
ہاں جہاں رونا ضروری تھا، وہاں رویا نہیں
موسموں نے پچھلی فصلوں کی نگہبانی نہ کی
اس لیے اب کے زمینِ دل میں کچھ بویا نہیں

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے 
کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے
یادوں کے سیلاب میں جس دم گھِر جاتا ہوں 
دل دیوار ادھر جانے کی خواہش ہوتی ہے
خواب دیکھنے کی حسرت میں تنہائی میری
آنکھوں کی بنجر دھرتی میں نیندیں بوتی ہے