فسردہ پا کے محبت کو، مسکرائے جا
اب آ گیا ہے تو، اِک آگ سی لگائے جا
اس اضطراب میں رازِ فروغ پنہاں ہے
طلوعِ صبح کی مانند تھرتھرائے جا
جہاں کو دے گی محبت کی تیغ آبِ حیات
مٹا مٹا کے محبت سنوار دیتی ہے
بگڑ بگڑ کے یونہی زندگی بنائے جا
وہ کیمیا ہی سہی پہلے خاک ہونا ہے
ابھی تو سوزِ نہانی کی آنچ کھائے جا
ابھی تو اے غمِ پنہاں جہان بدلا ہے
ابھی کچھ اور زمانے کے کام آئے جا
کھلیں نہ حسن کی فطرت کے راز عاشق سے
برت خلوص بھی، جھوٹی قسم بھی کھائے جا
خلوصِ عشق کو کر ماورائے غفلت و ہوش
کسی کو یاد کے پردے میں کچھ بھلائے جا
شباب پر ہے زمانہ، تِرے ستم کے نثار
ابھر رہا ہوں کئی رنگ سے، مٹائے جا
فراقؔ، چھیڑ دیا تُو نے کیا فسانۂ درد
سمجھ میں کچھ نہیں آتا مگر سنائے جا
فراق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment