لے کے ہمراہ چھلکتے ہوئے پیمانے کو
آن پہنچی ہے یہ ساعت بھی گزر جانے کو
ہاں اسے رہگزرِ خندۂ گل کہتے ہیں
ہاں یہی راہ نکل جاتی ہے ویرانے کو
فائدہ بھی کوئی جل جل کے مَرے جانے سے
سنگ اٹھانا تو بڑی بات ہے اب شہر کے لوگ
آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے دیوانے کو
کل بھی دیکھا تھا انہیں آج بھی درشن ہونگے
حسبِ معمول وہ نکلیں گے، ہوا کھانے کو
احمد مشتاق
No comments:
Post a Comment