ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے
زندگی میں بھی زندگی کم ہے
کیا ہوا تجھ کو میرے شہرِ سخن
شعر کافی ہیں، شاعری کم ہے
کتنا لمبا ہے ہجر کا رستہ
پوچھتا پھر رہا ہوں لوگوں سے
کیا کروں تجھ سے واقفی کم ہے
ٹھوکریں لگ رہی ہیں کیوں اتنی
آنکھ بند ہے یا روشنی کم ہے
زخم بھرنے لگے ہیں کچھ دن سے
شہر والوں سے دوستی کم ہے
میں بھی عادی سا ہو گیا غم کا
تیرے چہرے پہ بھی خوشی کم ہے
کھول دے راستہ سمندر کا
دیکھ آنکھوں میں تشنگی کم ہے
منہ چھپایا ہے آئینے سے زبیرؔ
یہ ندامت ہے،۔ عاشقی کم ہے
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment