Thursday 25 February 2016

ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے

ہنستا رہتا ہوں اور خوشی کم ہے
زندگی میں بھی زندگی کم ہے
کیا ہوا تجھ کو میرے شہرِ سخن
شعر کافی ہیں، شاعری کم ہے
کتنا لمبا ہے ہجر کا رستہ
تیری یادوں کو ڈائری کم ہے
پوچھتا پھر رہا ہوں لوگوں سے
کیا کروں تجھ سے واقفی کم ہے
ٹھوکریں لگ رہی ہیں کیوں اتنی
آنکھ بند ہے یا روشنی کم ہے
زخم بھرنے لگے ہیں کچھ دن سے
شہر والوں سے دوستی کم ہے
میں بھی عادی سا ہو گیا غم کا
تیرے چہرے پہ بھی خوشی کم ہے
کھول دے راستہ سمندر کا
دیکھ آنکھوں میں تشنگی کم ہے
منہ چھپایا ہے آئینے سے زبیرؔ
یہ ندامت ہے،۔ عاشقی کم ہے

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment