اک وقت تو ایسا تھا کہ دن رات کڑے تھے
پانی کا ہمیں خوف تھا مٹی کے گھڑے تھے
ہم نیند کے عالم میں کوئی موڑ مڑے تھے
دیکھا تو ابد گیر زمانے میں کھڑے تھے
معلوم ہے جس موڑ پہ بچھڑے تھے اسی جا
ہر موڑ پہ ہوتا تھا یہاں قتل وفا کا
ہر موڑ پہ ٹوٹے ہوئے آئینے پڑے تھے
ڈر تھا کہ پکارا تھا تمہیں ذر کی چمک نے
میدان سے تم لوگ کہاں بھاگ پڑے تھے
اسطورۂ بغداد کو شب خواب میں دیکھا
وہ حسن تھا شہزادے قطاروں میں کھڑے تھے
تم نے بھی بہت اشک بہائے تھے بچھڑ کر
پیڑوں سے بھی اس رات بہت پات جھڑے تھے
اک قافلہ بھٹکا تھا کسی خواب کے اندر
اک شہر کے رستے میں بہت موڑ پڑے تھے
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment