رات کی زلفیں بھیگی بھیگی اور عالم تنہائی کا
کتنے درد جگا دیتا ہے اک جھونکا پُروائی کا
اڑتے لمحوں کے دامن میں تیری یاد کی خوشبو ہے
پچھلی رات کا چاند ہے یا ہے عکس تِری انگڑائی کا
کب سے نجانے گلیوں گلیوں ساۓ کی صورت پھرتے ہیں
عشق ہماری بربادی کو دل سے دعائیں دیتا ہے
ہم سے پہلے اتنا روشن نام نہ تھا رسوائی کا
شعر ہمارے سن کر اکثر دل والے رو دیتے ہیں
ہم بھی لیے پھرتے ہیں دل میں درد کسی شہنائی کا
تم ہو کلیمؔ عجب دیوانے،۔۔ بات انوکھی کر تے ہو
چاہ کا بھی ارمان ہے دل میں خوف بھی ہے رسوائی کا
کلیم عثمانی
No comments:
Post a Comment