مجھے کس شب ملالِ گریۂ شبنم نہیں ہوتا
مجھے وہ غم بھی ہوتا ہے، جو میرا غم نہیں ہوتا
یہ صبح و شام ہیں اک رشتۂ احساس سے قائم
نگاہیں پھیر لو، تو پھر کوئی عالم نہیں ہوتا
گزر جاتے ہیں طوفاں اور آہٹ تک نہیں ہوتی
ستارے بھی بنا ڈالے، مگر یہ کیا قیامت ہے
اجالے بڑھتے جاتے ہیں، اندھیرا کم نہیں ہوتا
کرم کی بھیک کیوں مانگوں، میں وہ خوددار ہوں صہباؔ
کہ جس پر اک تبسم کا بھی احساں کم نہیں ہوتا
صہبا اختر
No comments:
Post a Comment