Sunday, 14 February 2016

کھلا بھی دیتے ہیں کلیاں مسل بھی دیتے ہیں

کِھلا بھی دیتے ہیں کلیاں مسل بھی دیتے ہیں
ہوا کے ہاتھ ارادہ بدل بھی دیتے ہیں
دل ایسی چیز کہ پلکوں سے چن لیا جائے
سنا ہے لوگ تو اس کو کچل بھی دیتے ہیں
یقین کی آخری سرحد پہ رہنے والے لوگ
کبھی کبھی تو لکھے کو بدل بھی دیتے ہیں
ہمارے گھر میں بزرگوں سے کتنی برکت ہے
گھنے درخت کا سایہ بھی، پھل بھی دیتے ہیں
سمندروں سے کہو ان کا احترام کریں
قدیم دریا کبھی رخ بدل بھی دیتے ہیں
ذرا سا صبر،۔۔۔ ذرا سا یقین تو رکھیں
سوال دیتے ہیں مشکل تو حل بھی دیتے ہیں

منظور ہاشمی

No comments:

Post a Comment