Sunday, 7 February 2016

معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے

معمول پہ ساحل رہتا ہے، فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
طوفاں جو ڈبو دے کشتی کو، کشتی میں ہی اکثر ہوتا ہے
جو فصلِ خزاں میں کانٹوں پر رقصاں و غزلخواں گزرے تھے
وہ موسمِ گل میں بھول گئے، پھولوں میں بھی خنجر ہوتا ہے 
اب دیکھ کے اپنی صورت کو ایک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں، آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے
ہر شام چراغاں ہوتا ہے، اشکوں سے ہماری پلکوں پر
ہر صبح ہماری بستی میں،۔ جلتا ہوا منظر ہوتا ہے 
اس شہرِ ستم میں پہلے تو منظورؔ بہت سے قاتل تھے
اب خود ہی مسیحا قاتل ہے،۔ یہ ذکر برابر ہوتا ہے

ملک زادہ منظور احمد

No comments:

Post a Comment