اس برس میں کوئی پیمان نبھائے خوشبو
اب کے آئے، کوئی پیغام سنائے خوشبو
رات پھر یاد کے تارے سرِ افلاک آئے
رات پھر خواب تِرے شہر سے لائے خوشبو
ٹوٹ جائے نہ طلسمِ شبِ تاریک کہیں
کس کی آمد کی خبر دے کے گزر جاتی ہے
کیوں ہوا میرے دریچے میں جگائے خوشبو
کس گھڑی بام پہ رکھے گا قدم موسمِ گل
آئے جاتی ہے مگر پاس نہ آئے خوشبو
عمران عامی
No comments:
Post a Comment