سفینے کا ناخدا بن گیا ہے
خدا کی طرح بات کرنے لگا ہے
کوئی اس کی صورت بھی دکھلا دے اس کو
جو ہر شخص پر تبصرے کر رہا ہے
دھواں اٹھ رہا ہے مِرے آشیاں سے
فروزاں ہوا ہے چراغِ تمنا
لہو دل کا جب آنسوؤں میں ڈھلا ہے
اسی پر مرے ہے ستم ڈھائے ہے جو
ہمارا یہ دل بھی عجب سر پھرا ہے
گھڑی ہے یہی دن کے ڈھلنے کی شاید
میرا سایہ مجھ سے بڑا ہو گیا ہے
نوازا جسے ہم نے لعل و گہر سے
اسی ہاتھ سے ہم کو پتھر ملا ہے
اسے کوئی قاتل سے کم تر نہ جانے
جو قاتل کو گھر میں اماں دے رہا ہے
کوئی پی کے بہکے، کوئی صرف ترسے
یہی مے کدہ ہے تو کیا مے کدہ ہے
بہاروں کا مطلب حفیظؔ اس سے پوچھو
بہاروں میں جس کا نشیمن جلا ہے
حفیظ بنارسی
No comments:
Post a Comment