Sunday, 7 February 2016

سفینے کا ناخدا بن گیا ہے

سفینے کا ناخدا بن گیا ہے
خدا کی طرح بات کرنے لگا ہے
کوئی اس کی صورت بھی دکھلا دے اس کو
جو ہر شخص پر تبصرے کر رہا ہے
دھواں اٹھ رہا ہے مِرے آشیاں سے
زمانہ سمجھتا ہے ہے کالی گھٹا ہے
فروزاں ہوا ہے چراغِ تمنا
لہو دل کا جب آنسوؤں میں ڈھلا ہے
اسی پر مرے ہے ستم ڈھائے ہے جو
ہمارا یہ دل بھی عجب سر پھرا ہے
گھڑی ہے یہی دن کے ڈھلنے کی شاید
میرا سایہ مجھ سے بڑا ہو گیا ہے
نوازا جسے ہم نے لعل و گہر سے
اسی ہاتھ سے ہم کو پتھر ملا ہے
اسے کوئی قاتل سے کم تر نہ جانے
جو قاتل کو گھر میں اماں دے رہا ہے
کوئی پی کے بہکے، کوئی صرف ترسے
یہی مے کدہ ہے تو کیا مے کدہ ہے
بہاروں کا مطلب حفیظؔ اس سے پوچھو
بہاروں میں جس کا نشیمن جلا ہے

حفیظ بنارسی

No comments:

Post a Comment