اپنوں میں اب وہ پیار کا منظر نہیں رہا
حد ہے کہ میرا گھر بھی مِرا گھر نہیں رہا
اب جو بھی بات کرتا ہے کرتا ہے شر کے ساتھ
بچوں میں بھی وہ خیر کا جوہر نہیں رہا
ہر صبح اور شام ہے بس انتشار میں
بھائی کا اپنا بھائی تماشائی ہو گیا
جو ہو شریکِ غم وہ برادر نہیں رہا
ہو کاروانِ زیست بھلا کیسے کامراں
راہِ حیات میں کوئی رہبر نہیں رہا
وہ زخم کھا گیا تو کبھی چوٹ کھا گیا
جو شخص اختیاط کے اندر نہیں رہا
سمجھے ہوئے ہے یاسؔ جو ماں باپ کو حقیر
جنت کا مستحق وہ سراسر نہیں رہا
یاس چاند پوری
No comments:
Post a Comment