Wednesday 10 February 2016

اپنوں میں اب وہ پیار کا منظر نہیں رہا

اپنوں میں اب وہ پیار کا منظر نہیں رہا
حد ہے کہ میرا گھر بھی مِرا گھر نہیں رہا
اب جو بھی بات کرتا ہے کرتا ہے شر کے ساتھ
بچوں میں بھی وہ خیر کا جوہر نہیں رہا
ہر صبح اور شام ہے بس انتشار میں
ماحول گھر کا سچ ہے کہ بہتر نہیں رہا
بھائی کا اپنا بھائی تماشائی ہو گیا
جو ہو شریکِ غم وہ برادر نہیں رہا
ہو کاروانِ زیست بھلا کیسے کامراں
راہِ حیات میں کوئی رہبر نہیں رہا
وہ زخم کھا گیا تو کبھی چوٹ کھا گیا
جو شخص اختیاط کے اندر نہیں رہا
سمجھے ہوئے ہے یاسؔ جو ماں باپ کو حقیر
جنت کا مستحق وہ سراسر نہیں رہا

یاس چاند پوری

No comments:

Post a Comment