لپٹی ہوئی قدموں سے وہ راہ گزر بھی
ایک ایک قدم جس میں ہے منزل بھی سفر بھی
افسانہ در افسانہ ہے گویا وہ نظر بھی
کچھ کہنے کو ہے جیسے بعنوانِ دگر بھی
ہر سانس میں آتی ہے عجب دل کی خبر بھی
بیگانہ تھا کچھ حسن بھی کچھ میری نظر بھی
اک آگ لگی کل سے ادھر بھی ہے ادھر بھی
گزرا ہے فراقؔ وطن آوارہ ادھر سے
کچھ چاک گریباں بھی تھا کچھ خاک بسر بھی
فراق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment