Saturday 6 February 2016

لپٹی ہوئی قدموں سے وہ راہگزر بھی

لپٹی ہوئی قدموں سے وہ راہ گزر بھی
ایک ایک قدم جس میں ہے منزل بھی سفر بھی
افسانہ در افسانہ ہے گویا وہ نظر بھی
کچھ کہنے کو ہے جیسے بعنوانِ دگر بھی
ہر سانس میں آتی ہے عجب دل کی خبر بھی
کچھ ساکن و ساکت بھی ہے کچھ زیر و زبر بھی
بیگانہ تھا کچھ حسن بھی کچھ میری نظر بھی
اک آگ لگی کل سے ادھر بھی ہے ادھر بھی
گزرا ہے فراقؔ وطن آوارہ ادھر سے
کچھ چاک گریباں بھی تھا کچھ خاک بسر بھی

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment