جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے
پھوڑ لوں سر نہ کہیں جسم کی دیواروں سے
اپنے رِستے ہوئے زخموں پہ چھڑک لیتا ہوں
راکھ جھڑتی ہے جو احساس کے انگاروں سے
گیت گاؤں تو لپک جاتے ہیں شعلے دل میں
کاسۂ سر لیے پھرتی ہیں وفائیں اب بھی
اب بھی تیشوں کی صدا آتی ہے کہساروں سے
زندہ لاشیں بھی دکانوں میں سجی ہیں شاید
بوئے خوں آتی ہے کھلتے ہوئے بازاروں میں
پیار ہر چند جھلکتا ہے ان آنکھوں سے مگر
زخم بھرتے ہیں مظفرؔ کہیں تلواروں سے
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment