Saturday 27 February 2016

جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے

جی بہلتا ہی نہیں سانس کی جھنکاروں سے 
پھوڑ لوں سر نہ کہیں جسم کی دیواروں سے
اپنے رِستے ہوئے زخموں پہ چھڑک لیتا ہوں
راکھ جھڑتی ہے جو احساس کے انگاروں سے
گیت گاؤں تو لپک جاتے ہیں شعلے دل میں
ساز چھیڑوں تو نکلتا ہے دھواں تاروں سے
کاسۂ سر لیے پھرتی ہیں وفائیں اب بھی
اب بھی تیشوں کی صدا آتی ہے کہساروں سے
زندہ لاشیں بھی دکانوں میں سجی ہیں شاید
بوئے خوں آتی ہے کھلتے ہوئے بازاروں میں
پیار ہر چند جھلکتا ہے ان آنکھوں سے مگر
زخم بھرتے ہیں مظفرؔ کہیں تلواروں سے

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment