جھلملاتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے
تُو مجھے اجلے نظاروں کی طرح لگتا ہے
ڈال دیتے ہیں کئی درد کٹاؤ اس میں
دل بھی دریا کے کناروں کی طرح لگتا ہے
بے یقینی ہے کہ رہتے ہیں سراب آنکھوں میں
زندگی جس نے گزاری ہو خوشی میں ساری
اس کو اک غم بھی ہزاروں کی طرح لگتا ہے
بعض اوقات محبت کی تپش میں مجھ کو
عشق بھی جلتے چناروں کی طرح لگتا ہے
مل گئی کرب مسلسل میں طبیعت اس سے
اب مجھے ہجر بھی یاروں کی طرح لگتا ہے
اعجاز توکل
No comments:
Post a Comment