Sunday, 7 February 2016

جھلملاتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے

جھلملاتے ہوئے تاروں کی طرح لگتا ہے
تُو مجھے اجلے نظاروں کی طرح لگتا ہے
ڈال دیتے ہیں کئی درد کٹاؤ اس میں
دل بھی دریا کے کناروں کی طرح لگتا ہے
بے یقینی ہے کہ رہتے ہیں سراب آنکھوں میں
فائدہ مجھ کو خساروں کی طرح لگتا ہے
زندگی جس نے گزاری ہو خوشی میں ساری
اس کو اک غم بھی ہزاروں کی طرح لگتا ہے
بعض اوقات محبت کی تپش میں مجھ کو
عشق بھی جلتے چناروں کی طرح لگتا ہے
مل گئی کرب مسلسل میں طبیعت اس سے
اب مجھے ہجر بھی یاروں کی طرح لگتا ہے

اعجاز توکل

No comments:

Post a Comment