Sunday, 7 February 2016

کيا مد نظر تم کو ہے ياروں سے تو کہیے

کيا مدِ نظر تم کو ہے، ياروں سے تو کہیے
گر منہ سے نہيں کہتے اشاروں سے تو کہیے
حالِ دل بے تاب کہا جائے جو کچھ بھی
گر کہيے نہ لاکھوں سے ہزاروں سے تو کہیے
موقوف ہے گر دل کا شکار آن و ادا پر
تو پہلے کچھ ان مير شکاروں سے تو کہیے
پھر 'قم' نہ کہیں حضرتِ عیسیٰ اگر ان سے
کہیے کہ یہ 'قم' عشق کے ماروں سے تو کہیے
ان دانتوں سے کیا موتیوں کو کہتے ہو ہم تاب
موتی ہے یہ کيا مال ستاروں سے تو کہیے
شانے کا دلِ چاک پسند آپ کو آیا 
کس واسطے یہ سينہ فگاروں سے تو کہیے
کیا کہتے ہو آنے کو سرِ خاکِ شہیداں
گر فتنے اٹھانے ہوں مزاروں سے تو کہیے
کچھ سوزِ دل اپنا کسی دل سوز کے آگے
فرصت ہو تپِ غم کے حراروں سے تو کہیے
اے ذوقؔ تنگ ظرف سے کہیے نہ کوئی بات 
کہہ کر اسے سننا ہو ہزاروں سے تو کہیے ​

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment