تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا ان کے لیے
حور یارب! ہے جو مومن کے لیے
بھیج دے دنیا میں دو دن کے لیے
وائے قسمت وہ بھی کہتے ہیں برا
پی بھی لے زاہد! جوانی میں شراب
عمر بھر ترسے گا اس دن کے لیے
گالیوں میں بھی بتوں کی ہے مزا
اک ہنر بھی عیب ہے ان کے لیے
دختِ رز سی پاک دامن چاہیے
شیخ جی سے پاک باطن کے لیے
کہتے ہیں، چھپنے کی بھی اچھی کہی
پردے میں بیٹھیں گے ہم ان کے لیے
دل کا ضامن تو تِرا کیا اعتبار
پہلے اک ضامن ہو ضامن کے لیے
چھاؤنی چھائے گی کیا فوجِ خزاں
صر صر آئی باغ میں تنکے لیے
وصل میں بولے جھٹک کر ہاتھ وہ
پھول پھل سب آج ہیں ان کے لیے
بن سنور کر آرسی دیکھا کیے
سب تکلف تھے یہ ہم سِن کے لیے
مجھ سے رخصت ہو مِرا عہدِ شباب
یا خدا! رکھنا نہ اس دن کے لیے
جھاڑتی ہے کون سے گل کی نظر
بلبلیں پھرتی ہیں کیوں تنکے لیے
کھا گئی پیری جوانی کو مِری
ہائے تھی یہ رات اس دن کے لیے
بوسہ بازی میں انہیں دھوکے دیے
بے گنے دس بیس دس دن کے لیے
لاش پر غیرت یہ کہتی ہے امیرؔ
آئے تھے دنیا میں اس دن کے لیے
امیر مینائی
No comments:
Post a Comment