Monday 22 February 2016

کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے

کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے
ہم لوگ خوش ہیں آج بھی دنیا سمیٹ کے
کتنی تھی احتیاج ہمیں آفتاب کی
بیٹھے تھے کچھ پہاڑ بھی برفیں لپیٹ کے
ہم سامنے تھے میز پہ اک دکھ کے سائے تھے
بس نقش دیکھتے رہے خالی پلیٹ کے
ٹھوکر لگی تو صف کی طرح جسم کھل گئے
اک سمت رکھ دیے تھے کسی نے لپیٹ کے
رکھا تھا رات بھر ہمیں بے چین ہجر نے
آرام ہم کو بیٹھ کے آیا نہ لیٹ کے
برسوں کا ایک زخم کہاں مندمل ہوا
بیٹھا رہا پرندہ پروں کو سمیٹ کے
توقیرؔ کرچیوں میں اسے ڈھونڈتے رہو
اک آئینے میں عکس رکھے تھے سمیٹ کے

توقیر عباس

No comments:

Post a Comment