کیا آخرت کا رنج کہ بھوکے ہیں پیٹ کے
ہم لوگ خوش ہیں آج بھی دنیا سمیٹ کے
کتنی تھی احتیاج ہمیں آفتاب کی
بیٹھے تھے کچھ پہاڑ بھی برفیں لپیٹ کے
ہم سامنے تھے میز پہ اک دکھ کے سائے تھے
ٹھوکر لگی تو صف کی طرح جسم کھل گئے
اک سمت رکھ دیے تھے کسی نے لپیٹ کے
رکھا تھا رات بھر ہمیں بے چین ہجر نے
آرام ہم کو بیٹھ کے آیا نہ لیٹ کے
برسوں کا ایک زخم کہاں مندمل ہوا
بیٹھا رہا پرندہ پروں کو سمیٹ کے
توقیرؔ کرچیوں میں اسے ڈھونڈتے رہو
اک آئینے میں عکس رکھے تھے سمیٹ کے
توقیر عباس
No comments:
Post a Comment