Tuesday, 23 February 2016

یہ دیوانے کبهی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے

یہ دیوانے کبهی پابندیوں کا غم نہیں لیں گے 
گریباں چاک جب تک کر نہ لیں گے دم نہیں لیں گے
یہ غم کس نے دیا ہے پوچھ مت اے ہمنشیں! ہم سے 
زمانہ لے رہا ہے نام اس کا،۔ ہم نہیں لیں گے
محبت کرنے والے بهی عجب خوددار ہوتے 
جگر پر زخم لیں گے، زخم پر مرہم نہیں لیں گے
غمِ دل ہی کے ماروں کو غمِ ایام بهی دے دو 
غم اتنا لینے والے کیا اب اتنا غم نہیں لیں گے
سنوارے جا رہے ہیں ہم، الجھتی جاتی ہیں زلفیں 
تم اپنے ذمہ لو اب یہ بکهیڑا ہم نہیں لیں
شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے 
مگر عاجزؔ غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے

کلیم عاجز

No comments:

Post a Comment