Thursday, 11 February 2016

دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں

دل جدا، مال جدا، جان جدا لیتے ہیں 
اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں 
میان سے لیتے ہیں جب قتل کو میرے تلوار
اپنی چالیں اسے پہلے وہ سکھا لیتے ہیں
مجلسِ وعظ میں جب بیٹھتے ہیں ہم میکش 
دخترِ رز کو بھی پہلو میں بٹھا لیتے ہیں 
درد آگیں جو کوئی دل نظر آتا ہے کہیں
دوڑ کر ہم اسے چھاتی سے لگا لیتے ہیں
دھیان میں لا کے تِرا سلسلۂ زلف دراز 
ہم شبِ ہجر کو کچھ اور بڑھا لیتے ہیں
ایک بوسے کے عوض مانگتے ہیں دل کیا خوب 
جی میں سوچیں تو وہ کیا دیتے ہیں، کیا لیتے ہیں
تیغِ قاتل رہے آباد، کہ کشتے اس کے
دہنِ زخم سے بوسوں کا مزا لیتے ہیں
حسن اللہ نے بخشا ہے بتوں کو ایسا
دیر میں شیخ کو کعبے سے بلا لیتے ہیں
اپنی محفل سے اٹھاتے ہیں عبث ہم کو حضور
چپ کے بیٹھے ہیں الگ، آپ کا کیا لیتے ہیں
بت بھی کیا چیز ہیں اللہ سلامت رکھے
گالیاں دے کے غریبوں کو دعا لیتے ہیں
شاخِ مرجان میں جواہر نظر آتے ہیں امیرؔ
کبھی انگلی جو وہ دانتوں میں دبا لیتے ہیں

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment