Saturday, 27 February 2016

چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی

چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی
دل ڈوبنے لگا تو ابھارا کبھی کبھی
ہر چند اشک یاس سے جب امڈے تو پی گئے
چمکا فلک پہ ایک ستارا کبھی کبھی
میں نے تو ہونٹ سی لیے، اس دل کو کیا کروں
بے اختیار تم کو پکارا کبھی کبھی
زہرِ الم کی اور بڑھانے کو تلخیاں
بے مہریوں کے ساتھ مدارا کبھی کبھی
صرف اس لیے کہ دل شکنی نہ ہو دوست کی
احسان کر لیا ہے گوارا کبھی کبھی
رسوائیوں سے دور نہیں بے قراریاں
دل کو ہو کاش صبر کا یارا کبھی کبھی
کترا کے ایک موج یہ کہتی نکل گئی
ساحل سے مصلحت ہے کنارا کبھی کبھی
اے شاہدِ جمال! کوئی شکل ہے کہ ہو
تیری نظر سے تیرا نظارا کبھی کبھی
ہنگامِ گریہ آہ سے ناداں اثرؔ حذر
اڑتا ہے اشک جیسے شرارا کبھی کبھی

اثر لکھنوی

No comments:

Post a Comment