چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی
دل ڈوبنے لگا تو ابھارا کبھی کبھی
ہر چند اشک یاس سے جب امڈے تو پی گئے
چمکا فلک پہ ایک ستارا کبھی کبھی
میں نے تو ہونٹ سی لیے، اس دل کو کیا کروں
زہرِ الم کی اور بڑھانے کو تلخیاں
بے مہریوں کے ساتھ مدارا کبھی کبھی
صرف اس لیے کہ دل شکنی نہ ہو دوست کی
احسان کر لیا ہے گوارا کبھی کبھی
صرف اس لیے کہ دل شکنی نہ ہو دوست کی
احسان کر لیا ہے گوارا کبھی کبھی
رسوائیوں سے دور نہیں بے قراریاں
دل کو ہو کاش صبر کا یارا کبھی کبھی
کترا کے ایک موج یہ کہتی نکل گئی
ساحل سے مصلحت ہے کنارا کبھی کبھی
اے شاہدِ جمال! کوئی شکل ہے کہ ہو
تیری نظر سے تیرا نظارا کبھی کبھی
ہنگامِ گریہ آہ سے ناداں اثرؔ حذر
اڑتا ہے اشک جیسے شرارا کبھی کبھی
اثر لکھنوی
No comments:
Post a Comment