Saturday, 6 February 2016

بے چینیوں کو گھول کے اپنے گلاس میں

بے چینیوں کو گھول کے اپنے گلاس میں
ہم لوگ زہر پیتے ہیں جینے کی آس میں
کچھ لوگ آگ سے بھی بجھاتے ہیں پیاس کو
کچھ لوگ ہیں جو خون بھی پیتے ہیں پیاس میں
اوپر سے زندگی ہے بہت خوشنما، مگر
اندر سے کتنے زخم چھپے ہیں لباس میں
ہر شخص کو سناؤ نہ اپنی ہی داستاں
یہ حال ہے تو کون بٹھائے گا پاس میں
اس مدرسے سے نکلے ہیں دیوانہ بن کے لوگ
ہم اب تلک  پڑے ہیں وفا کی کلاس میں
اپنے لہو سے جس نے دیا گلستاں کو رنگ
لیتا رہے گا سانس وہ پھولوں کی باس میں
روتے ہیں اپنے داغ جہاں کو دکھا کے لوگ
ہم ہنس رہے ہیں زخم چھپا کر لباس میں
شاہدؔ وہ شخص کب سے تِرے دل میں ہے چھپا
نکلا ہے ڈھونڈنے تُو جسے آس پاس میں

شاہد کبیر 

No comments:

Post a Comment