بے چینیوں کو گھول کے اپنے گلاس میں
ہم لوگ زہر پیتے ہیں جینے کی آس میں
کچھ لوگ آگ سے بھی بجھاتے ہیں پیاس کو
کچھ لوگ ہیں جو خون بھی پیتے ہیں پیاس میں
اوپر سے زندگی ہے بہت خوشنما، مگر
ہر شخص کو سناؤ نہ اپنی ہی داستاں
یہ حال ہے تو کون بٹھائے گا پاس میں
اس مدرسے سے نکلے ہیں دیوانہ بن کے لوگ
ہم اب تلک پڑے ہیں وفا کی کلاس میں
اپنے لہو سے جس نے دیا گلستاں کو رنگ
لیتا رہے گا سانس وہ پھولوں کی باس میں
روتے ہیں اپنے داغ جہاں کو دکھا کے لوگ
ہم ہنس رہے ہیں زخم چھپا کر لباس میں
شاہدؔ وہ شخص کب سے تِرے دل میں ہے چھپا
نکلا ہے ڈھونڈنے تُو جسے آس پاس میں
شاہد کبیر
No comments:
Post a Comment