دل کہ اک طوفاں زدہ کشتی بہ موجِ اشکِ غم
جس کا افسانہ شکستہ بادباں پر ہے رقم
دل کہ گھر اللہ کا لیکن بتوں کی جلوہ گاہ
فطرتاً وہ کس قدر معصوم لیکن متہم
اور اس تہمت کے پس منظر میں ان جذبوں کی دھوم
جن کی ہر لغزش خود اپنی حد میں بے حد محترم
آدمی اِک بے سہارا ناؤ مانجھی کے بغیر
زندگی اندھے ارادوں کا تلاطم یم بہ یم
اس قدر حساس کر دیتا ہے کربِ زندگی
دل میں چبھ جاتا ہے کوئل کی نوا کا زیر و بم
وہ کسی کوہِ ندا نے دور سے آواز دی
بے خیالی میں بڑھے آواز کی جانب قدم
پاؤں بڑھتے جا رہے تھے اپنی منزل کی طرف
منتظر تھی گود پھیلائے ہوئے شامِ الم
جھٹ پٹے کے وقت بستی کے مکانوں سے پرے
گاؤں کے پنگھٹ پہ دو پرچھائیاں ہوتی تھیں ضم
اِک کلی کے قامتِ زیبا پہ بھونرے کی نگاہ
ناپتی جاتی تھی جسمِ مرتعش کا پیچ و خم
راہرو گم تھا طلسمی راستوں کے جال میں
نقشِ منزل دور ہوتا جا رہا تھا دم بدم
پھر اسی گم کردہ راہی کے افق پر چونک اٹھا
اک ستارہ، جس کے تیور میں ہلالِ نو کا خم
سرخ صحراؤں کی تپتی سرزمیں کے درمیاں
ایک نخلستان جو رکھ لے مسافر کا بھرم
زندگی کی منفعل بے چہرگی کی چھاؤں میں
ایک چہرہ جس میں صدیوں کی رفاقت کا حشم
جس نے بتلایا کہ ناقص ہے وجود انسان کا
آدمی کا دوسرا حصہ نہ ہو جب تک بہم
گاہ قربت کی سبیلیں، گاہ ہجرت کی فصیل
گاہ دلداری کا امرت، گاہ دل سوزی کا سَم
گاہ رخصت کی گھڑی میں ایک جھولے کی طرح
دلبری کی پینگ لیتی مرمریں بانہوں کا خَم
گاہ عرضِ حالِ دل پر بے رخی کے باوجود
راز پنہاں کھول دیتا تھا نَفس کا زیر و بم
گاہ ہنگامِ تمنا اس کی آنکھوں کے غزال
نرم پلکوں کی گھنیری چھاؤں میں کرتے تھے رم
اک روایت ہے قصیدے میں غزل کی چاشنی
رِیت ہے دونوں کی فن کارانِ ماضی ہوں کہ ہم
ورنہ اس سنجیدہ تر صنفِ سخن کی لوح پر
جب غزل لکھے تو پھر رک رک کے چلتا ہے قلم
اب یہ لازم ہے کہ اِس برگِ بہار انجام پر
زندگی کے کچھ خزاں افگن حقائق ہوں رقم
طالب جوہری
جس کا افسانہ شکستہ بادباں پر ہے رقم
دل کہ گھر اللہ کا لیکن بتوں کی جلوہ گاہ
فطرتاً وہ کس قدر معصوم لیکن متہم
اور اس تہمت کے پس منظر میں ان جذبوں کی دھوم
جن کی ہر لغزش خود اپنی حد میں بے حد محترم
آدمی اِک بے سہارا ناؤ مانجھی کے بغیر
زندگی اندھے ارادوں کا تلاطم یم بہ یم
اس قدر حساس کر دیتا ہے کربِ زندگی
دل میں چبھ جاتا ہے کوئل کی نوا کا زیر و بم
وہ کسی کوہِ ندا نے دور سے آواز دی
بے خیالی میں بڑھے آواز کی جانب قدم
پاؤں بڑھتے جا رہے تھے اپنی منزل کی طرف
منتظر تھی گود پھیلائے ہوئے شامِ الم
جھٹ پٹے کے وقت بستی کے مکانوں سے پرے
گاؤں کے پنگھٹ پہ دو پرچھائیاں ہوتی تھیں ضم
اِک کلی کے قامتِ زیبا پہ بھونرے کی نگاہ
ناپتی جاتی تھی جسمِ مرتعش کا پیچ و خم
راہرو گم تھا طلسمی راستوں کے جال میں
نقشِ منزل دور ہوتا جا رہا تھا دم بدم
پھر اسی گم کردہ راہی کے افق پر چونک اٹھا
اک ستارہ، جس کے تیور میں ہلالِ نو کا خم
سرخ صحراؤں کی تپتی سرزمیں کے درمیاں
ایک نخلستان جو رکھ لے مسافر کا بھرم
زندگی کی منفعل بے چہرگی کی چھاؤں میں
ایک چہرہ جس میں صدیوں کی رفاقت کا حشم
جس نے بتلایا کہ ناقص ہے وجود انسان کا
آدمی کا دوسرا حصہ نہ ہو جب تک بہم
گاہ قربت کی سبیلیں، گاہ ہجرت کی فصیل
گاہ دلداری کا امرت، گاہ دل سوزی کا سَم
گاہ رخصت کی گھڑی میں ایک جھولے کی طرح
دلبری کی پینگ لیتی مرمریں بانہوں کا خَم
گاہ عرضِ حالِ دل پر بے رخی کے باوجود
راز پنہاں کھول دیتا تھا نَفس کا زیر و بم
گاہ ہنگامِ تمنا اس کی آنکھوں کے غزال
نرم پلکوں کی گھنیری چھاؤں میں کرتے تھے رم
اک روایت ہے قصیدے میں غزل کی چاشنی
رِیت ہے دونوں کی فن کارانِ ماضی ہوں کہ ہم
ورنہ اس سنجیدہ تر صنفِ سخن کی لوح پر
جب غزل لکھے تو پھر رک رک کے چلتا ہے قلم
اب یہ لازم ہے کہ اِس برگِ بہار انجام پر
زندگی کے کچھ خزاں افگن حقائق ہوں رقم
طالب جوہری
No comments:
Post a Comment