رات مہکی ہے گیسوؤں کی طرح
سارا منظر ہے گلرؤں کی طرح
اس کے اٹھنے کا اب سوال نہیں
گر پڑا ہے جو آنسوؤں کی طرح
شب ڈھلے دوڑتی ہے پرچھائیں
میں ازل سے تلاش میں اپنی
جلتا بجھتا ہوں جگنوؤں کی طرح
مجھ کو فرصت تو دے گناہوں کی
میں مقید ہوں سادھوؤں کی طرح
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
کون گزرا ہے خوشبوؤں کی طرح
کیف عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment