Sunday, 7 February 2016

رات مہکی ہے گیسوؤں کی طرح

رات مہکی ہے گیسوؤں کی طرح
سارا منظر ہے گلرؤں کی طرح
اس کے اٹھنے کا اب سوال نہیں
گر پڑا ہے جو آنسوؤں کی طرح
شب ڈھلے دوڑتی ہے پرچھائیں
دل کی وادی میں آہوؤں کی طرح
میں ازل سے تلاش میں اپنی
جلتا بجھتا ہوں جگنوؤں کی طرح
مجھ کو فرصت تو دے گناہوں کی
میں مقید ہوں سادھوؤں کی طرح
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
کون گزرا ہے خوشبوؤں کی طرح

کیف عظیم آبادی

No comments:

Post a Comment