Saturday, 6 February 2016

دل افسردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں

دل افسردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
کسی کا درد اٹھے جن میں وہ راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دورئ قربت نما نکلی
کہ تجھ سے مل کے بھی تجھ سے ملاقاتیں نہیں ہوتیں
یہ دورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل  
برستے ہیں، مگر اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں
زبان و گوش کی ناکامیوں کا کچھ ٹھکانہ ہے  
کہ باتیں ہو کے بھی تجھ سے کبھی باتیں نہیں ہوتیں
وہ عالم اور ہی ہے جس میں گہری نیند آتی ہے
خوشی و غم میں سونے کے لیے راتیں نہیں ہوتیں
ارے واعظ! تِری رسمِ عبادت میں دھرا کیا ہے
نگاہیں اہلِ دل کی، کب مناجاتیں نہیں ہوتیں
سمجھ کچھ راز حسن و عشق کے شبہائے فرقت میں
کہ رونے کے لیے یہ دکھ بھری راتیں نہیں ہوتیں
سبب کچھ اور ہے، یا اتفاقاتِ زمانہ ہیں
کہ اب تجھ سے بھی، پہلی سی ملاقاتیں نہیں ہوتیں
فراقؔ اس دور کے اہلِ نظر سے ہے پیام اپنا
حقائق ہوتے ہیں اشعار میں، باتیں نہیں ہوتیں

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment