دل افسردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
کسی کا درد اٹھے جن میں وہ راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دورئ قربت نما نکلی
کہ تجھ سے مل کے بھی تجھ سے ملاقاتیں نہیں ہوتیں
یہ دورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل
زبان و گوش کی ناکامیوں کا کچھ ٹھکانہ ہے
کہ باتیں ہو کے بھی تجھ سے کبھی باتیں نہیں ہوتیں
وہ عالم اور ہی ہے جس میں گہری نیند آتی ہے
خوشی و غم میں سونے کے لیے راتیں نہیں ہوتیں
ارے واعظ! تِری رسمِ عبادت میں دھرا کیا ہے
نگاہیں اہلِ دل کی، کب مناجاتیں نہیں ہوتیں
سمجھ کچھ راز حسن و عشق کے شبہائے فرقت میں
کہ رونے کے لیے یہ دکھ بھری راتیں نہیں ہوتیں
سبب کچھ اور ہے، یا اتفاقاتِ زمانہ ہیں
کہ اب تجھ سے بھی، پہلی سی ملاقاتیں نہیں ہوتیں
فراقؔ اس دور کے اہلِ نظر سے ہے پیام اپنا
حقائق ہوتے ہیں اشعار میں، باتیں نہیں ہوتیں
فراق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment