Sunday 14 February 2016

عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے

عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے 
آفتیں برستی ہیں، دل سکون پاتا ہے 
آزمائشیں اے دل! سخت ہی سہی لیکن 
یہ نصیب کیا کم ہے، کوئی آزماتا ہے 
عمر جتنی بڑھتی ہے، اور گھٹتی جاتی ہے 
سانس جو بھی آتا ہے لاش بن کے جاتا ہے 
آبلوں کا شکوہ کیا، ٹھوکروں کا غم کیسا
آدمی محبت میں سب کو بھول جاتا ہے 
کارزارِ ہستی میں عز و جاہ کی دولت 
بھیک میں نہیں ملتی، آدمی کماتا ہے 
اپنی قبر میں تنہا آج تک گیا ہے کون 
دفترِ عمل عامرؔ! ساتھ ساتھ جاتا ہے

عامر عثمانی

No comments:

Post a Comment