جسموں کے پگھلنے کا مہینا نہیں آیا
بھاگے ہیں بہت، پھر بھی پسینا نہیں آیا
طوفانِ بلا خیز میں رہتے ہیں ہمیشہ
ساحل پہ کبھی اپنا سفینا نہیں آیا
حق بات پہ کیا زہر کا وہ جام پئیں گے
نکلتے ہیں فقط سنگ تہِ سنگ زمیں سے
ہاتھوں میں کسی کے بھی خزینا نہیں آیا
تلوار لیے لرزہ بر اندام ہے قاتل
مقتول کے ماتھے پہ پسینا نہیں آیا
سانسوں کا تسلسل بھی ہے مجبورئ ہستی
جیتے ہیں، کہ مرنے کا قرینا نہیں آیا
جس شہر میں اک عمر سے ہم رہتے ہیں باقیؔ
اس شہر میں اب تک ہمیں جینا نہیں آیا
باقی احمد پوری
No comments:
Post a Comment