Wednesday 10 February 2016

جسموں کے پگھلنے کا مہینا نہیں آیا​

جسموں کے پگھلنے کا مہینا نہیں آیا​
بھاگے ہیں بہت، پھر بھی پسینا نہیں آیا​
طوفانِ بلا خیز میں رہتے ہیں ہمیشہ​
ساحل پہ کبھی اپنا سفینا نہیں آیا​ 
حق بات پہ کیا زہر کا وہ جام پئیں گے​
اک ساغرِ مے بھی جنہیں پینا نہیں آیا​
نکلتے ہیں فقط سنگ تہِ سنگ زمیں سے​
ہاتھوں میں کسی کے بھی خزینا نہیں آیا​
تلوار لیے لرزہ بر اندام ہے قاتل​
مقتول کے ماتھے پہ پسینا نہیں آیا​
سانسوں کا تسلسل بھی ہے مجبورئ ہستی​
جیتے ہیں، کہ مرنے کا قرینا نہیں آیا​
جس شہر میں اک عمر سے ہم رہتے ہیں باقی​ؔ
اس شہر میں اب تک ہمیں جینا نہیں آیا​

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment