Saturday 27 February 2016

جسے عدیم سدھارے ہوئے زمانہ ہوا

جسے عدیمؔ سدھارے ہوئے زمانہ ہُوا
اسی کے ساتھ یہ دل بھی کہیں روانہ ہُوا
بس ایک ہُوک دھڑکتی ہے اب تو سینے میں
ہمارے دل کو تو دھڑکے ہوئے زمانہ ہُوا
دھواں سا ہے، نہ بھڑکتا ہے دل نہ بجھتا ہے
اسی طرح سے سلگتے ہوئے زمانہ ہُوا
ادھر تو جا کے کوئی گھر کو لوٹتا ہی نہیں
یہ کس طرف کو تِرا کارواں روانہ ہُوا
یہ فیصلہ تو بہت دیر سے تھا ذہنوں میں
ہماری آج کی باتیں تو اک بہانہ ہُوا

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment