جسے عدیمؔ سدھارے ہوئے زمانہ ہُوا
اسی کے ساتھ یہ دل بھی کہیں روانہ ہُوا
بس ایک ہُوک دھڑکتی ہے اب تو سینے میں
ہمارے دل کو تو دھڑکے ہوئے زمانہ ہُوا
دھواں سا ہے، نہ بھڑکتا ہے دل نہ بجھتا ہے
ادھر تو جا کے کوئی گھر کو لوٹتا ہی نہیں
یہ کس طرف کو تِرا کارواں روانہ ہُوا
یہ فیصلہ تو بہت دیر سے تھا ذہنوں میں
ہماری آج کی باتیں تو اک بہانہ ہُوا
عدیم ہاشمی
No comments:
Post a Comment