ایک مہتاب تھا پانی میں، نکل آیا ہے
میرا کردار کہانی میں نکل آیا ہے
ایک بے سمت مسافر تھا، روانہ تھا کہیں
بس مِری سمت روانی میں نکل آیا ہے
کون مقتل کی طرف دیکھ رہا ہے ہنس کر
ایک درویش عذابوں سے نکل کر آخر
ایک کٹیا میں، پرانی میں نکل آیا ہے
مجھ سے کہتا ہے رضیؔ چاہتے رہنا مجھ کو
لو مِرا نام معانی میں نکل آیا ہے
رضی الدین رضی
No comments:
Post a Comment