Sunday 7 February 2016

ایک مہتاب تھا پانی میں نکل آیا ہے

ایک مہتاب تھا پانی میں، نکل آیا ہے
میرا کردار کہانی میں نکل آیا ہے
ایک بے سمت مسافر تھا، روانہ تھا کہیں
بس مِری سمت روانی میں نکل آیا ہے
کون مقتل کی طرف دیکھ رہا ہے ہنس کر
کون اس سمت جوانی میں نکل آیا ہے
ایک درویش عذابوں سے نکل کر آخر
ایک کٹیا میں، پرانی میں نکل آیا ہے
مجھ سے کہتا ہے رضیؔ چاہتے رہنا مجھ کو
لو مِرا نام معانی میں نکل آیا ہے

رضی الدین رضی

No comments:

Post a Comment