مر گیا میں بھری جوانی میں
عشق تھا ہی نہیں کہانی میں
موج در موج خواب رقصاں ہیں
عکس ٹھہرا ہوا ہے پانی میں
اب یقین و گمان کچھ بھی نہیں
خود سے اب منہ چھپائے پھرتا ہوں
راز کل کہہ دئیے روانی میں
اپنے خوابوں پہ خاک ڈالی اور
خاک لائے ہیں ہم نشانی میں
تیرا سورج غروب ہو گیا ہے
اب اندھیرے ہیں راجدھانی میں
عمر اپنی گزر گئی قیصرؔ
ایک کمرۂ امتحانی میں
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment