Thursday 25 February 2016

مر گیا میں بھری جوانی میں

مر گیا میں بھری جوانی میں
عشق تھا ہی نہیں کہانی میں
موج در موج خواب رقصاں ہیں
عکس ٹھہرا ہوا ہے پانی میں
اب یقین و گمان کچھ بھی نہیں
پہلے رہتا تھا بدگمانی میں
خود سے اب منہ چھپائے پھرتا ہوں
راز کل کہہ دئیے روانی میں
اپنے خوابوں پہ خاک ڈالی اور
خاک لائے ہیں ہم نشانی میں
تیرا سورج غروب ہو گیا ہے
اب اندھیرے ہیں راجدھانی میں
عمر اپنی گزر گئی قیصرؔ
ایک کمرۂ امتحانی میں

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment