Saturday 27 February 2016

ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا

ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا
موجوں کے لیے کوئی کنارہ نہیں ہوتا
دل ٹوٹ بھی جائے تو محبت نہیں مٹتی
اس راہ میں لٹ کر بھی خسارا نہیں ہوتا
سرمایۂ شب ہوتے ہیں یوں تو سبھی ستارے
ہر تارہ مگر صبح کا تارا نہیں ہوتا
اشکوں سے کہیں مٹتا ہے احساسِ تلون
پانی میں جو گھل جائے وہ پارا نہیں ہوتا
سونے کی ترازو میں مِرا درد نہ تولو
امداد سے غیرت کا گزارہ نہیں ہوتا
تم بھی تو مظفرؔ کی کسی بات پہ بولو
شاعر کا ہی لفظوں پہ اجارہ نہیں ہوتا

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment