Saturday 27 February 2016

چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے

چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے 
کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے
مجھ سے تصویر طلب کرتی ہیں آنکھیں میری
میں نے کچھ رنگ چنے تھے تِرے شیرازے سے
صاف گوئی سے اب آئینہ بھی کتراتا ہے
اب تو پہچانتا ہوں خود کو بھی اندازے سے
میں تو مٹی کا بدن اوڑھ کے خود نکلا ہوں
کیا ڈراتی ہیں ہوائیں مجھے خمیازے سے
اپنے چہرے پہ نہ اوروں کے خد و خال سجا
روپ آتا ہے کہیں اترے ہوئے غازے سے
جھوٹی عظمت کی پجاری ہے مظفرؔ دنیا
پستہ قد لوگ بھی گزریں بڑے دروازے سے

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment