چاپ آئے کہ ملاقات ہو آوازے سے
کب سے تنہائی لگی بیٹھی ہے دروازے سے
مجھ سے تصویر طلب کرتی ہیں آنکھیں میری
میں نے کچھ رنگ چنے تھے تِرے شیرازے سے
صاف گوئی سے اب آئینہ بھی کتراتا ہے
میں تو مٹی کا بدن اوڑھ کے خود نکلا ہوں
کیا ڈراتی ہیں ہوائیں مجھے خمیازے سے
اپنے چہرے پہ نہ اوروں کے خد و خال سجا
روپ آتا ہے کہیں اترے ہوئے غازے سے
جھوٹی عظمت کی پجاری ہے مظفرؔ دنیا
پستہ قد لوگ بھی گزریں بڑے دروازے سے
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment