اس دل کے خونی دریا میں ہم پہلی بار نہیں اترے
دکھ لیکن اب کے بھاری تھے ڈوبے تو پار نہیں اترے
سنسان افق تکتے تکتے اب آنکھیں ہمت ہار گئیں
جس صبح کا ہم سے وعدہ تھا اس کے آثار نہیں اترے
ہر صبح چمکتے سورج کی تھالی میں بھر کر آتے ہیں
اب آنکھ کی سوکھی جھیلوں پر گزرے وقتوں کے نوحہ گر
آنسو کے غول نہیں آئے اشکوں کے ڈار نہیں اترے
اب کوئی نہ ایسا موسم ہو جب نخل سخن کی شاخوں پر
معنی کے پھول نہیں آئیں حرفوں کی بہار نہیں اترے
اک اچھی ساعت آئے گی پھر تیز ہوا بتلائے گی
پانی زنجیر بنا کیسے، ہم کیسے پار نہیں اترے
منظور ہاشمی
No comments:
Post a Comment