Saturday, 27 February 2016

اس دل کے خونی دریا میں ہم پہلی بار نہیں اترے

اس دل کے خونی دریا میں ہم پہلی بار نہیں اترے
دکھ لیکن اب کے بھاری تھے ڈوبے تو پار نہیں اترے
سنسان افق تکتے تکتے اب آنکھیں ہمت ہار گئیں
جس صبح کا ہم سے وعدہ تھا اس کے آثار نہیں اترے
ہر صبح چمکتے سورج کی تھالی میں بھر کر آتے ہیں
اب تک ان خالی شاخوں پر کرنوں کے ہار نہیں اترے
اب آنکھ کی سوکھی جھیلوں پر گزرے وقتوں کے نوحہ گر
آنسو کے غول نہیں آئے اشکوں کے ڈار نہیں اترے
اب کوئی نہ ایسا موسم ہو جب نخل سخن کی شاخوں پر
معنی کے پھول نہیں آئیں حرفوں کی بہار نہیں اترے
اک اچھی ساعت آئے گی پھر تیز ہوا بتلائے گی
پانی زنجیر بنا کیسے، ہم کیسے پار نہیں اترے

منظور ہاشمی

No comments:

Post a Comment