میں اگر راہِ محبت میں بھی مارا جاتا
ہاں مگر اس کے لبوں سے تو پکارا جاتا
عشق دریا میں سفر اپنا جو جاری رہتا
دور تک ساتھ ہمارے یہ کنارا جاتا
دو گھڑی ہم ہی زمانے سے نہ شکوہ کرتے
بس اسی ڈر سے کبھی خواب نہ دیکھے ہم نے
یہ جو اک آنکھ میں رقصاں ہے ستارا، جاتا
مجھ پہ ہر دور میں اشعار اتارے جاتے
پر صحیفہ نہ کسی طور اتارا جاتا
اس کا جیون تھا مِری موت سے مشروط رضیؔ
میں اگر سانس بھی لیتا، تو وہ مارا جاتا
رضی الدین رضی
No comments:
Post a Comment