Thursday 25 February 2016

جس سے امید جانثاری کی

جس سے امیدِ جانثاری کی
بات اس نے بھی کاروباری کی
زندگی ناگ تھی کچل ڈالی 
ایک ہی چوٹ ایسی کاری کی
یہ لکیریں نہیں ہیں چہرے پر 
وقت نے مجھ پہ دستکاری کی
لازمی ہجر تھا نصاب میں، سو 
جو محبت تھی اختیاری کی
یاد آتا رہا مسلسل تُو
ہم نے زخموں کی جب شماری کی
موت آئی تو یہ کھلا مجھ پر
حد بھی ہوتی ہے بیقراری کی
ایک دکھ نے لگا لیا تھا گلے
اک اداسی نے غمگساری کی
اس کے کوچے سے لوٹنا تھا عبث 
اس لیے الٹی گنتی جاری کی
درج محرومیوں کے نعرے کیے
دل کی دیوار اشتہاری کی

زبیر قیصر

No comments:

Post a Comment