Sunday 14 February 2016

بھڑکا دیا شعلوں کو یہ کس نے ہوا دی ہے

بھڑکا دیا شعلوں کو یہ کس نے ہوا دی ہے
اس امن کی بستی میں کیوں آگ لگا دی ہے
اچھائی کا وہ اپنی پائے گا صلہ اک ان
وہ جس نے برائی کی تصویر مٹا دی ہے
ہم ان کی نگاہوں میں اک دن نہ سما پائے
ہم نے انہیں آنکھوں میں اور قلب میں جا دی ہے
وہ جس نے عداوت سے کوسا ہے ہمیں ہر دم
ہم نے اسے جینے کی دن رات دعا دی ہے
دیکھیں گے پرکھ کر ہم انصاف تِرا اک دن
کس کس کو سزا دی، کس کس کو جزا دی ہے
خاموش جو رہتا ہے، وہ سو کو ہراتا ہے
سچی یہ کہاوت ہے جو ہم نے سنا دی ہے
دو بھائی اخوت سے جب رہنے نہیں پائے
آنگن میں اسی گھر کے دیوار اٹھا دی ہے
اے دوست! حقیقت میں دنیا کی ہر اک رونق
جنت کی تمنا نے بے سود بنا دی ہے
کیوں عمر گزاری ہے باطل کے اندھیروں میں 
حق نے تو تمہیں حق کی دن رات ضیا دی ہے
اے یاسؔ تصور کی صنعت گری کیا کہیے
ہر زاویے سے ان کی تصویر بنا دی ہے

یاس چاند پوری

No comments:

Post a Comment