بھڑکا دیا شعلوں کو یہ کس نے ہوا دی ہے
اس امن کی بستی میں کیوں آگ لگا دی ہے
اچھائی کا وہ اپنی پائے گا صلہ اک ان
وہ جس نے برائی کی تصویر مٹا دی ہے
ہم ان کی نگاہوں میں اک دن نہ سما پائے
وہ جس نے عداوت سے کوسا ہے ہمیں ہر دم
ہم نے اسے جینے کی دن رات دعا دی ہے
دیکھیں گے پرکھ کر ہم انصاف تِرا اک دن
کس کس کو سزا دی، کس کس کو جزا دی ہے
خاموش جو رہتا ہے، وہ سو کو ہراتا ہے
سچی یہ کہاوت ہے جو ہم نے سنا دی ہے
دو بھائی اخوت سے جب رہنے نہیں پائے
آنگن میں اسی گھر کے دیوار اٹھا دی ہے
اے دوست! حقیقت میں دنیا کی ہر اک رونق
جنت کی تمنا نے بے سود بنا دی ہے
کیوں عمر گزاری ہے باطل کے اندھیروں میں
حق نے تو تمہیں حق کی دن رات ضیا دی ہے
اے یاسؔ تصور کی صنعت گری کیا کہیے
ہر زاویے سے ان کی تصویر بنا دی ہے
یاس چاند پوری
No comments:
Post a Comment