Sunday 14 February 2016

بھروسا کر لوں یہ میں کوئی باوفا تو لگے

بھروسا کر لوں یہ میں کوئی باوفا تو لگے
کوئی فرشتہ صفت، کوئی بے خطا تو لگے
کوئی کمی ہے اگر مجھ میں مان لوں میں بھی
یہ شرط ہے،۔ کہ کوئی مثلِ آئینہ تو لگے
عذابِ جاں ہے یہ دنیا تو چھوڑوں، لیکن
عدو کی حق میں مِرے کوئی بددعا تو لگے
میں اعتراف گناہوں کا کر تو لوں، لیکن
عمل میں اپنے کوئی مجھ کو پارسا تو لگے
میں ڈر رہا ہوں کہیں کچھ تِرے خلاف نہ ہو
جو کر رہا ہوں میں اس میں تِری رضا تو لگے
وہ ایک پَل کے لیے بھی خفا نہیں ہوتا
ہزار بار منا لوں،۔۔ مگر خفا تو لگے
وہ روز کہتا ہے مجھ کو مِرا پسِ پردہ
یہ بات اس کی کبھی مجھ کو برملا تو لگے
مِرے کلام میں اے یاسؔ یاسیت تو نہیں
اگر کہیں ہے بتاؤ؟۔ مجھے پتا تو لگے

یاس چاند پوری

No comments:

Post a Comment