بے اعتباریوں کا بھروسا ملا مجھے
ہر شخص اپنے آپ سے سہما ملا مجھے
پھرتے ہیں لوگ ٹوٹی ہوئی شخصیت لیے
جو شخص بھی ملا وہ ادھورا ملا مجھے
اے انقلاب! بول، تِرا کیا خیال ہے؟؟
میں جس کو دیکھتا ہوں وہ اپنے ہی خون میں
بے اطمینانیوں کا کلیسا ملا مجھے
میں کس کو اپنا کہہ کے بلاتا جہاں میں
ہر آئینہ خلوص کا دھندلا ملا مجھے
کیف عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment