اقتباس از مثنوی گلزار نسیم
آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پسر کو ناگاہ
مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشم پوشی
دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کو بھائی
ہر چند کہ بادشہ نے ٹالا
اس ماہ کو شہر سے نکالا
گھر گھر یہی ذکر تھا یہی شور
خارج ہوا نور دے دی کور
آیا کوئی لے کے نسخۂ نور
لایا کوئی جا کے سرمۂ طور
تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور
بینا نہ ہوا وہ دیدۂ کور
ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے جس طرح نباہے
دیا شنکر نسیم
آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پسر کو ناگاہ
مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشم پوشی
دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کو بھائی
ہر چند کہ بادشہ نے ٹالا
اس ماہ کو شہر سے نکالا
گھر گھر یہی ذکر تھا یہی شور
خارج ہوا نور دے دی کور
آیا کوئی لے کے نسخۂ نور
لایا کوئی جا کے سرمۂ طور
تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور
بینا نہ ہوا وہ دیدۂ کور
ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے جس طرح نباہے
دیا شنکر نسیم
No comments:
Post a Comment