Sunday 14 February 2016

آتا تھا شکار گاہ سے شاہ

اقتباس از مثنوی گلزار نسیم

آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پسر کو ناگاہ
مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشم پوشی
دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کو بھائی
ہر چند کہ بادشہ نے ٹالا
اس ماہ کو شہر سے نکالا
گھر گھر یہی ذکر تھا یہی شور
خارج ہوا نور دے دی کور
آیا کوئی لے کے نسخۂ نور
لایا کوئی جا کے سرمۂ طور
تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور
بینا نہ ہوا وہ دیدۂ کور
ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے جس طرح نباہے

دیا شنکر نسیم

No comments:

Post a Comment