Thursday, 11 February 2016

ایک دل ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا

ایک دل ہمدم مِرے پہلو سے کیا جاتا رہا 
سب تڑپنے، بلبلانے کا مزا جاتا رہا 
سب کرشمے تھے جوانی کے، جوانی کیا گئی 
وہ امنگیں مٹ گئیں،۔ وہ ولولہ جاتا رہا 
درد باقی غم سلامت ہے مگر اب دل کہاں
ہائے وہ غم دوست وہ درد آشنا جاتا رہا
درد باقی داغ باقی دل ہی پہلو میں نہیں
رہ گئے ناآشنا سب آشنا جاتا رہا
آنے والا جانے والا، بیکسی میں کون تھا 
ہاں مگر، اک دم غریب، آتا رہا، جاتا رہا 
مر گیا میں جب تو ظالم نے کہا کہ افسوس آج 
ہائے ظالم، ہائے ظالم، کا مزا جاتا رہا 
شربتِ دیدار سے تسکین سی کچھ ہو گئی 
دیکھ لینے سے دوا کے، درد کیا جاتا رہا 
مجھ کو گلیوں میں جو دیکھا، چھیڑ کر کہنے لگے 
کیوں میاں! کیا ڈھونڈتے پھرتے ہو، کیا جاتا رہا 
جب تلک تم تھے کشیدہ دل تھا شکووں سے بھرا 
جب گلے سے مل گئے، سارا گلہ جاتا رہا 
ہائے وہ صبحِ شبِ وصل، ان کا کہنا شرم سے 
اب تو میری بے وفائی کا گلہ جاتا رہا 
دل وہی آنکھیں وہی، لیکن جوانی وہ کہاں 
ہائے اب وہ تاکنا، وہ جھانکنا جاتا رہا 
گھورتے دیکھا جو ہم چشموں کو جھنجھلا کر کہا 
کیا لحاظ آنکھوں کا بھی او بے حیا جاتا رہا 
کیا بری شے ہے جوانی رات دن ہے تاک جھانک 
ڈر بتوں کا اک طرف، خوفِ خدا جاتا رہا 
کھو گیا دل کھو گیا، رہتا تو کیا ہوتا امیرؔ
جانے دو اک بے وفا جاتا رہا، جاتا رہا

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment