نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے
میں اک جام ہوں کس کس کے ہونٹوں تک پہنچوں
تراش لیتا ہوں اس سے بھی آئینہ منظورؔ
کسی کے ہاتھ کا پتھر اگر لگے ہے مجھے
ملک زادہ منظور احمد
No comments:
Post a Comment