Saturday 27 February 2016

دھواں اٹھنے لگا جب دشتِ جاں سے

دھواں اٹھنے لگا جب دشتِ جاں سے
نہ جانے آ گئے بادل کہاں سے
پرندے اڑ گئے شاخِ صدا کے
معانی گم ہوئے لفظ وبیاں سے
نہ جانے کیوں اچانک بڑھ گیا ہے
زمیں کا فاصلہ اب آسماں سے 
سبھی انصار غائب ہو گئے ہیں
ہماری ہجرتوں کے درمیاں سے
یقیں کی بستیاں بھی مل گئی ہیں
گزر جب بھی ہوا دشتِ گماں سے
کہیں حیران آنکھیں کھو نہ جائیں
اٹھا پردے نہ اتنے درمیاں سے
جہاں پر ختم ہوتی ہے کہانی
نکلتا ہے نیا قصہ وہاں سے

منظور ہاشمی

No comments:

Post a Comment