Tuesday 31 January 2017

زندگی کو زوال ہے اب تو

زندگی کو زوال ہے اب تو
روگ اپنی مثال ہے اب تو
ایسے بدلے ہیں ڈھنگ دنیا نے
ٹھوکروں پہ کمال ہے اب تو
سوچ نادم، خیال رنجیدہ
جینا گویا ملال ہے اب تو

یہ نہ سمجھو خیال ہے میرا

یہ نہ سمجھو خیال ہے میرا
جو سنایا، وہ حال ہے میرا
ایسا گم ہوں میں اپنی دنیا میں 
خود سے ملنا محال ہے میرا
کیا کروں غیر سے گلے شکوے 
جس میں اٹکا وہ جال ہے میرا

کوئی دلیل مرے جرم کی سند مرے دوست

کوئی دلیل مِرے جرم کی، سند مِرے دوست
بے اعتباری کی ہوتی ہے کوئی حد مرے دوست
ابھی تلک تِری الجھن سلجھ نہیں رہی ہے
بگڑ چکے ہیں مِرے دیکھ، خال و خد مرے دوست
بھلے ڈبو دے مجھے میرا چُلو بھر پانی
کہ مانگنی نہیں تجھ سے کوئی مدد مرے دوست

لگ رہا ہے یہیں کہیں میں ہوں

لگ رہا ہے یہیں کہیں میں ہوں
آپ کہتے رہیں، نہیں میں ہوں
اک جگہ مل کے بیٹھتے تھے ہم 
اب کہیں تم ہو اور کہیں میں ہوں 
مجھ پہ تیرا گماں ہوا سب کو
میں تو کہتا رہا، نہیں میں ہوں 

تو مرے خواب دیکھتی ہے ابھی

تُو مِرے خواب دیکھتی ہے ابھی
دیکھ پھولوں میں تازگی ہے ابھی
اک تو معصوم سی وہ لڑکی ہے
اور محبت نئی نئی ہے ابھی
کر ہی لیتا ہوں اعتبار تِرا
تیرے لہجے میں چاشنی ہے ابھی

یہ تماشے سر بازار بہت ہوتے ہیں

یہ تماشے سرِ بازار بہت ہوتے ہیں 
اچھی آنکھوں کے خریدار بہت ہوتے ہیں
ایک تو دل بھی لگائے سے نہیں لگتا ہے
دوسرا شہر میں تہوار بہت ہوتے ہیں
زندہ لاشوں کا یہاں سوگ نہیں کرتا کوئی 
مرنے والوں کے عزادار بہت ہوتے ہیں

یہی نہيں کہ بلاؤں کو دور کرتے ہوئے

یہی نہيں کہ بلاؤں کو دور کرتے ہوئے 
وہ مجھ تک آیا کئی دل عبور کرتے ہوئے
جو سادگی میں بلا کا حسین دِکھتا تھا 
حسین تر نظر آیا غرور کرتے ہوئے
ہماری آنکھ کے دریا میں دیکھ سکتے ہو 
چراغ کِھلتے ہوئے پھول نور کرتے ہوئے

دریا ہوئے تو اپنی روانی سے ڈر گئے

دریا ہوئے تو اپنی روانی سے ڈر گئے
آتش پرست لوگ تھے پانی سے ڈر گئے
پہلے تو راکھ ہو گئی چوپال گاؤں کی 
پھر یوں ہوا کہ لوگ کہانی سے ڈر گئے
وہ خوف تھا کہ شہر سے نکلا نہیں کوئی 
شاہ و گدا بھی نقل مکانی سے ڈر گئے

تمہارے نام کی وحشت اتار آئے ہیں

تمہارے نام کی وحشت اتار آئے ہیں 
ہم ایک جسم میں صدیاں گزار آئے ہیں
زمیں لپیٹ کے دریا سمیٹ کر سارے 
فلک کی ساتویں کھڑکی کے پار آئے ہیں
تمہاری رات سے اس خواب کو گزرنا تھا
وہ ایک خواب جو دن میں گزار آئے ہیں

کوئی روزن نہ دریچہ نہ کوئی در رکھا

کوئی روزن نہ دریچہ نہ کوئی در رکھا 
چار دیواری کو زندان بنا کر رکھا 
ریت کا تاج محل پانی میں بہنا ہی تھا، جب
دشت حصے میں مِرے، آپ سمندر رکھا 
جادوئی پھول کھلا صحن میں خوشبو پھیلی 
جس نے تا دیر مِرے گھر کو معطر رکھا 

ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی نہیں گئے

ہم جانا چاہتے تھے جدھر بھی، نہیں گئے
اور انتہا تو یہ ہے کہ گھر بھی نہیں گئے
وہ خواب جانے کیسے خرابے میں گم ہوئے
اس پار بھی نہیں ہیں، اُدھر بھی نہیں گئے
صاحب! تمہیں خبر ہی کہاں تھی کہ ہم بھی ہیں
ویسے تو اب بھی ہیں، کوئی مر بھی نہیں گئے

اسٹیشن پر آتی جاتی گاڑی کی آواز

شجاع آباد

اسٹیشن پر آتی جاتی گاڑی کی آواز
جیسے اگلی پچھلی، ساری، صدیوں کی ہمراز
نامقبول دعاؤں جیسے بڑھتے یکہ بان
اور مسافر آنے والے، جیسے رب کا دھیان
ٹوٹی پھوٹی، اونچی نیچی، ناہموار سڑک
گزرے وقت کی گرد پڑی ہے جس پہ دور تلک

نکلا ہوں شہر خواب سے ایسے عجیب حال میں

نکلا ہوں شہرِ خواب سے، ایسے عجیب حال میں
غرب مِرے جنوب میں، شرق مِرے شمال میں
کوئی کہیں سے آئے اور مجھ سے کہے کہ زندگی
تیری تلاش میں ہے دوست بیٹھا ہے کس خیال میں
ڈھونڈتے پھر رہے ہیں سب میری جگہ مِرا سبب
کوئی ہزار میل میں، کوئی ہزار سال میں

افق پر مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر کب ہے

افق پر مہر بننا تھا جسے اب وہ شرر کب ہے
ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے
کبھی ایسا بھی تھا لیکن نہ تھے جب بخت برگشتہ
اِسے دریوزہ گر کہئے یہ دل اب تاجور کب ہے
اثر جس کا مرض کی ابتدا تک ہی مسلم تھا
ملے بھی گر تو وہ نسخہ بھلا اب کارگر کب ہے

سمجھیں وہ ہمارے لئے ابرو میں خم اچھا

سمجھیں وہ ہمارے لیے ابرو میں خم اچھا
رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچھا
کہتے ہیں وہ آلام کو خاطر میں نہ لاؤ
ٹھہرے گا تمہارے لیے اگلا جنم اچھا
وجداں نے کہی بات یہ کیا حق میں ہمارے
چہرہ یہ مِرا اور لباس اس کا نم اچھا

جینے کے دن بھی جس نے دئیے ہیں ادھار کے

جینے کے دن بھی جس نے دئیے ہیں ادھار کے
ہم بندگان ہیں اسی پروردگار کے
یہ بھی نجانے کیوں مِرے دامن میں رہ گئیں
کچھ پتیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلغ ہیں خیر کے
ہائے وہ سلسلے کہ جو ہیں گیر و دار کے

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے
اگلے وقتوں کی یادگاروں کو
آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے
سوکھتے جا رہے ہیں گل بوٹے
باغ کانٹے اگائے جاتا ہے

گھر کا سونا بیچ دیا ہے

چند گھرانوں نے مل جل کر
کتنے گھروں کا حق چھینا ہے
باہر کی مٹی کے بدلے
گھر کا سونا بیچ دیا ہے
سب کا بوجھ اٹھانے والے
تو اس دنیا میں تنہا ہے

جنت ماہی گیروں کی

جنت ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی
سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی
اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی

دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے

دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے
چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے
کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گل
پتیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
آنچ کھا کھا کر صدائے رنگ کی
تتلیوں کے پر سنہرے ہو گئے

میرے گھر سے تو سر شام ہوئے رخصت

میرے گھر سے تو سرِ شام ہوئے رخصت

میرے گھر سے تو سرِ شام ہوئے ہو رخصت
میرے خلوت کدۂ دل سے نہ جانا ہو گا
ہجر میں اور تو سب موت کے ساماں ہوں گے
اک یہی یاد بہلنے کا بہانا ہو گا
تم تو جانے کو ہو اس شہر کو ویراں کر کے

ہم لوگ تو ظلمت میں جینے کے بھی عادی ہیں

پایان فارم

ہم لوگ تو ظلمت میں جینے کے بھی عادی ہیں
اس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیں
اک یاد پہ آہوں کا طوفاں امڈتا ہوا آتا ہے
اک ذکر پہ اب دل کو تھاما نہیں جاتا ہے
اک نام پہ آنکھوں میں آنسو چلے آتے ہیں
جی ہم کو جلاتا ہے، ہم جی کو جلاتے ہیں

جس کی محنت اس کا حاصل

جس کی محنت اس کا حاصل

سکھ کے سپنے دیکھتے جاگے
جگ جگ کے دکھیارے سائیں
کھلتا ہے محنت کا پرچم
سنتے ہو جے کارے سائیں
دھرتی کانپنے انبر کانپے
کانپیں چاند ستارے سائیں

Monday 30 January 2017

ہم میسر ہیں سہارا کیجے

ہم میسر ہیں،۔ سہارا کیجے
جب بھرے دل تو کنارا کیجے
آپ پہ طے ہے بہار آنی ہے
دو گھڑی ہم پہ گزارا کیجے
ہم بھی آنسو ہیں چھلک جائیں گے
بس ذرا دیر گوارا کیجے

حال حلیہ کلام کب دیکھے

حال حلیہ کلام کب دیکھے 
دل یہ رتبہ مقام کب دیکھے
تھام لے ہاتھ یہ فقیروں کا
کون مالک غلام کب دیکھے
جو ہیں رائج ہماری دنیا میں
دل وہ رسمیں تمام کب دیکھے

نہ سوالوں سے آزماتا ہوں

نہ سوالوں سے آزماتا ہوں
نہ جوابوں سے دل جلاتا ہوں
نہ کسی بھید کی کرید ہے اب
نہ دلیلوں میں سر کھپاتا ہوں
نہ کوئی بت تراشنا ہے اب
نہ ہی دنیا میں جی لگاتا ہوں

اس کی تحویل کے مراحل میں

اس کی تحویل کے مراحل میں
میں ہوں تکمیل کے مراحل میں
آنکھوں آنکھوں میں گم ہیں دونوں ہی
اپنی ترسیل کے مراحل میں
عشق رکھتا نہیں ہے عاشق کو
قال اور قیل کے مراحل میں

دن ڈھلا ہے تو ڈھل گئے سائے

دن ڈھلا ہے تو ڈھل گئے سائے
جانے والے نہ لوٹ کر آئے
اتنی مصروفیت رہی طاری
خود سے بھی آج تک نہ مل پائے
نیند میں بھی عذاب خوابوں کے
آدمی پھر بھلا کہاں جائے

جگر کا خون پینے کے لیے ہیں

جگر کا خون پینے کے لئے ہیں
ادھوری عمر جینے کے لئے ہیں
غموں میں ہی گزر جاتی ہیں عمریں
مگر خوشیاں مہینے کے لئے ہیں
کبھی مہر و مروت کے لئے تھے
مگر اب دل یہ کینے کے لئے ہیں

انتظار

انتظار

اماوس رات کا منظر
طلسمِ شب کے پہلو میں
در و دالان ڈوبے ہیں
پرانی، ادھ موئی منڈیر پر
ظلمت کا پہرا ہے

عجب بے نام خواہش ہے

عجب بے نام خواہش ہے

عجب بے نام خواہش ہے
تمہارے نام پر اک نظم لکھنے کی
کہ جس میں ہجر کے موسم کے
سارے رنگ شامل ہوں
تمہاری یاد کے لمحے

وہ برکھا رت کی بارش کا نظارہ دیکھتے رہنا

وہ برکھا رُت کی بارش کا نظارا دیکھتے رہنا
شبوں کو چاند کرنوں کا اشارا دیکھتے رہنا
تمہیں تنہائیوں میں سوچنا اور سوچتے جانا
وصال اور قرب کا وہ دور سارا دیکھتے رہنا
تمہارے بعد اب ہر شب مِری حالت یہ ہوتی ہے
کہ ٹیرس پر کھڑے اک اک ستارا دیکھتے رہنا

شاہی دربار میں جوتے اتارنے سے پہلے

شاہی دربار میں جوتے اتارنے سے پہلے
جان، مال اور عزت کی تختیاں 
اتار لی جاتی ہیں ہماری گردنوں سے
اور ہمارے مکانوں کے نقشے پھاڑ کر
باندھ دیئے جاتے
ہیں ان زخموں پر 
جو حادثو ں کے خوف سے
گہرے ہو گئے

خالی نیم پلیٹ اور بھری ہوئی آنکھ

خالی نیم پلیٹ اور بھری ہوئی آنکھ 

سال کے کچھ دن تاوان کے طور پر 
دیئے جائیں اس شخص کو 
جس کے والٹ میں رکھی ہوئی تھیں
ہماری بھری ہوئیں آنکھیں 
ہم جو کاغذوں کی کھٹر پٹر کے دوران 
طے کرتے رہے وہ ملاقاتیں
جنہیں وقت کی دیمک نگل گئی 

قاتل سڑکیں نوچ رہی ہیں

قاتل سڑکیں نوچ رہی ہیں 
وہ آنکھیں جو سوچ رہی ہیں
شہر میں جتنی قبریں ہیں 
میری گنتی سے باہر ہیں 
مجھ کو تو معلوم نہیں کیوں خواب اجاڑے جاتے ہیں 
کیوں ورقے پھاڑے جاتے ہیں 

مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے

مرنے کا سکھ جینے کی آسانی دے
ان داتا کیسا ہے، آگ نہ پانی دے
اس دھرتی پر ہریالی کی جوت جگا
کالے میگھا پانی دے، گردانی دے
بند افلاک کی دیواروں میں روزن کر
کوئی تو منظر مجھ کو امکانی دے

شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا

شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا
نارسائی میں بھی کیا کام ہنر سے نکلا
نشۂ مرگ سی اک لہر لہو میں چمکی
جب قبا اتری تو خنجر بھی کمر سے نکلا
سنگ بے حس اٹھی موج سیہ تاب کوئی
سرسراتا ہوا اک سانپ کھنڈر سے نکلا

دن ہے بے کیف بے گناہوں سا

دن ہے بے کیف بے گناہوں سا
نا کشادہ شراب گاہوں سا
کچھ فقیرانہ بے نیازی بھی
کچھ مزاج اپنا بادشاہوں سا
دل درِ مۓ کدہ سا، وا سب پر
گھر بھی رکھتے ہیں خانقاہوں سا

Sunday 29 January 2017

راتیں ہیں اداس دن کڑے ہیں

راتیں ہیں اداس، دن کڑے ہیں
اے دل تِرے حوصلے بڑے ہیں
اے یادِ حبیب! ساتھ دینا
کچھ مرحلے سخت آ پڑے ہیں
رکنا ہو اگر تو سو بہانے
جانا ہو تو راستے بڑے ہیں

جو بھی قاصد تھا وہ غیروں کے گھروں تک پہنچا

جو بھی قاصد تھا وہ غیروں کے گھروں تک پہنچا
کوئی نامہ نہ تِرے در بدروں تک پہنچا
مجھ کو مٹی کیا تُو نے تو یہ احسان بھی کر
کہ مِری خاک کو اب کوزہ گروں تک پہنچا
اے خدا! ساری مسافت تھی رفاقت کے لیے
مجھ کو منزل کی جگہ ہمسفروں تک پہنچا

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہر سبزہ و گل

ایبٹ آباد

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہرِ سبزہ و گل
جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جھومتی ہیں
جہاں ستارے اترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کی قوسیں فلک کو چومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چنار و سرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں

تجھ پہ اگر نظر پڑے تو جو کبھی ہو رو برو

نذرِ قرۃ العین طاہرہ​

تجھ پہ اگر نظر پڑے تُو جو کبھی ہو رُو برُو
دل کے معاملے کروں تجھ سے بیان دُو بدُو
ہے تیرے غم میں جانِ جاں آنکھوں سے خونِ دل رواں
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم، چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو
قوسِ لب و خُمِ دَہن، پہ دو زلفِ پُر شکن
غنچہ بہ غنچہ گل بہ گل لالہ بہ لالہ بُو بہ بُو

ہم سے قیمت تو یہ پوری ہی لیا کرتی ہے

ہم سے قیمت تو یہ پوری ہی لیا کرتی ہے
زندگی، خواب ادھورے سے دیا کرتی ہے
ہر محبت نے اندھیروں کو کیا ہے روشن 
روشنی تیز بھی اندھا ہی کیا کرتی ہے
کھوج مشکل میں ہی تو مشکلوں کا حل اپنی
ہاں مصیبت بھی بہت زخم سیا کرتی ہے

بن کے سچ آشکار رہیئے گا

بن کے سچ آشکار رہئے گا
سی کے لب رازدار رہئے گا
ہے محبت یہ تیر کی مانند
دل کے بس آر پار رہئے گا
یاد رکھئے وفا کا ہے مطلب
موت تک برقرار رہئے گا

اے میرے دیس کب تو جاگے گا

اے میرے دیس کب تُو جاگے گا
اے میرے دیس کب تو بدلے گا
کب یہ سوچے گا تُو بنا تھا کیوں
کب تُو دیکھے گا کیا بنا تیرا
کب تلک دلفریب نعروں میں 
موت رقصاں رہے گی گلیوں میں

Saturday 28 January 2017

دن سہانے تلاش کرتے ہو

دن سہانے تلاش کرتے ہو 
گم خزانے تلاش کرتے ہو 
خود مٹائے ہمارے قلب و جگر 
اب ٹھکانے تلاش کرتے ہو 
عشق برحق، وفا حقیقت ہے 
تم، فسانے تلاش کرتے ہو 

آپ میں ظلم کے انداز اب آنے تو لگے

آپ میں ظلم کے انداز اب آنے تو لگے
خیر سے چاہنے والوں کو ستانے تو لگے
بے حجابانہ سرِ بزم وہ آنے تو لگے 
شرم کچھ دور ہوئی، آنکھ ملانے تو لگے
خود نہ آئیں وہ مجھے پاس بلانے تو لگے 
رفتہ رفتہ ہی سہی، راہ پر آنے تو لگے

سینکڑوں بے قرار پھرتے ہیں

سینکڑوں بے قرار پھرتے ہیں
طالبِ وصلِ یار پھرتے ہیں
ان کے مشتاق، ان کے دیوانے 
ہر طرف بے شمار پھرتے ہیں
دھوم بھی ہے، دہائی بھی ان کی 
کر کے سولہ سنگھار پھرتے ہیں

سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا

سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا
نشہ ہر رند کو ہے ایک ہی پیمانے کا
لطف کر، ظلم سے قابو نہیں آنے کا
لوگ دیکھیں نہ تماشا ترے دیوانے کا
مدعا کس پہ عیاں ہو مرے افسانے کا
راز ہوں میں، نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

جذبوں کے تن پہ آئے ہوئے زخم چھیل کے

جذبوں کے تن پہ آئے ہوئے زخم چھیل کے
قصے سنا مجھے کسی شامِ طویل کے
صبر و رضا سے پُر ہے یہ تشنہ بدن مرا
نخرے اٹھاؤں کس لیے دریا ذلیل کے
کھل کر نہیں کھلے گی یہ ذہنِ نفیس پر
کرتوت جانتا ہوں میں دنیا بخیل کے

غم کے موسم میں اذیت نے سند جاری کری

غم کے موسم میں اذیت نے سند جاری کری
اشک نے آنکھ کی دنیا سے نموداری کری
جیسے حالات ہیں ویسا ہی نظر آتا ہوں
خود پہ مانگی ہوئی وحشت تو نہیں طاری کری
شعر کہنا مجھے آساں تو نہیں تھا، لیکن
موسمِ ہجر میں اشکوں نے اداکاری کری

زرد موسم کی اذیت بھی اٹھانے کا نہیں

زرد موسم کی اذیت بھی اٹھانے کا نہیں
میں درختوں کی جگہ خود کو لگانے کا نہیں
اب تِرے ساتھ تعلق کی گزرگاہوں پر
وقت مشکل ہے، مگر ہاتھ چھڑانے کا نہیں
قریۂ سبز سے آتی ہوئی پُر کیف ہوا 
طاق پر رکھا مِرا دِیپ بجھانے کا نہیں

بدن کے جام میں کھلتے گلاب جیسی ہے

بدن کے جام میں کھِلتے گلاب جیسی ہے
سنا ہے اس کی جوانی شراب جیسی ہے
کنول کنول ہے سراپا، غزل غزل چہرہ
وہ ہوبہو کسی شاعر کے خواب جیسی ہے
اندھیرے دور کرے سب کی پارسائی کے
وہ ایک شکل کہ جو ماہتاب جیسی ہے

وہ پھول ہے اور خوشبوؤں میں پلا ہوا ہے

وہ پھول ہے اور خوشبوؤں میں پلا ہوا ہے
وہ جب کھِلا تو کئی رتوں کا بھلا ہوا ہے
دمک رہا ہے کچھ ایسے وہ میرے بازوؤں میں
کسی کٹھالی میں سونا جیسے گلا ہوا ہے
وصال کی منزلوں کا وہ بے ریا مسافر
وفاؤں کے راستے پہ کب کا چلا ہوا ہے

پھر جھومتے لہراتے ہوئے آئے ہیں بادل

پھر جھومتے لہراتے ہوئے آئے ہیں بادل
ہر سو تری زلفوں کی طرح چھائے ہیں بادل
پھر جاگے ہیں تجدیدِ ملاقات کے ارماں
پھر تیرے شبستاں کی خبر لائے ہیں بادل
یا تیری جدائی کی جلن کا یہ اثر ہے
یا دھوپ میں لپٹے ہوئے کچھ سائے ہیں بادل

مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آ گیا ہے

مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آ گیا ہے 
میرے دل کی دھڑکنوں میں تِرا نام آ گیا ہے 
یہ کہاں نصیب میرے کہ تو آپ چل کے آتا 
کوئی جذبۂ محبت میرے کام آ گیا ہے 
مجھے کر گیا ہے رسوا تیرا بے رخی سے ملنا 
جو چھپا تھا راز دل میں سرِ عام آ گیا ہے 

جا اور محبت کر پگلی

کسے نین ملا کر چین ملا کہا لاکھ تجھے کہیں دل نہ لگا
اب ٹھنڈی آئیں بھر پگلی جا اور محبت کر پگلی
جا اور محبت کر پگلی

تُو نے پیار کے نغمے چھیڑے تھے پر کھو گئی غم کے راگ میں تُو
وہ آگ نہ کوئی دیکھ سکا چپ چاپ جلی جس آگ میں تُو
اب آگ سے دامن بھر پگلی جا اور محبت کر پگلی
جا اور محبت کر پگلی

جب رات ڈھلی تم یاد آئے

گیت

جب رات ڈھلی تم یاد آئے 
ہم دور نکل آئے اس یاد کے سائے سائے
جو بات چلی تم یاد آئے اور پاس چلے آئے
اس یاد کے سائے سائے 

اپنوں نے دیا جو غم اس غم کی شکایت کیا
کیا جانے یہاں کوئی اس غم میں ہے راحت کیا

Friday 27 January 2017

تھا عبث ترک تعلق کا ارادہ یوں بھی

تھا عبث ترکِ تعلق کا ارادہ یوں بھی
عشق زندہ نہیں رہتا ہے زیادہ یوں بھی
اک تو ان آنکھوں میں نشہ تھا بلا کا اس پر
ہم کو مرغوب ہے کیفیتِ بادہ یوں بھی
نامہ بر! اس سے نہ احوال ہمارا کہنا
وہ تنگ خو ہے بگڑ جائے مبادا یوں بھی

نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے

نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے
تو کر گئے کوچ میری آنکھوں سے خواب سارے
بیاضِ دل پر غزل کی صورت رقم کیے ہیں
تِرے کرم بھی تِرے ستم بھی حساب سارے
بہار آئی ہے تم بھی آؤ ادھر سے گزرو
کہ دیکھنا چاہتے ہیں تم کو گلاب سارے

بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے

گیت

بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے 
رو رو کے گزرتی ہیں راتیں آنکھوں میں سحر ہو جاتی ہے

شرما کے کبھی چھپ چھپ جانا ہنس ہنس کے کبھی چل چل دینا
چنری کے ملائم کونے کو دانتوں میں دبا کر بل دینا 
آواز کسی کے ہنسنے کی کانوں میں ابھی تک آتی ہے

آج بھڑکی رگِِ وحشت ترے دیوانوں کی

آج بھڑکی رگِ وحشت تِرے دیوانوں کی
قسمتیں جاگنے والی ہیں بیابانوں کی
پھر گھٹاؤں میں ہے نقارۂ وحشت کی صدا
ٹولیاں بندھ کے چلیں دشت کو دیوانوں کی
آج کیا سوجھ رہی ہے تِرے دیوانوں کو
دھجیاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں گریبانوں کی

جینے کا لطف کچھ تو اٹھاؤ نشے میں آؤ

جینے کا لطف کچھ تو اٹھاؤ، نشے میں آؤ
ہنستے ہیں کیسے غم میں دکھاؤ، نشے میں آؤ
نشہ پلا کے خوب مرا حالِ دل سنا
کچھ تم بھی دل کی بات بتاؤ، نشے میں آؤ
تم ہوش میں جب آئے تو آفت ہی بن کے آئے
اب میرے پاس جب بھی تم آؤ، نشے میں آؤ

رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا

رہنا تم چاہے جہاں خبروں میں آتے رہنا
ہم کو احساسِ جدائی سے بچاتے رہنا
خود گزیدہ ہوں بڑا زہر ہے میرے اندر
اس کا تریاق ہے راتوں کو جگاتے رہنا
مدتوں بعد جو دیکھو گے تو ڈر جاؤ گے
اپنے کو آئینہ ہر روز دکھاتے رہنا

توبہ توبہ سے ندامت کی گھڑی آئی ہے

توبہ توبہ سے ندامت کی گھڑی آئی ہے
مے کدے پر بڑی گھنگھور گھٹا چھائی ہے
رنگ کچھ اتنا مِری وحشتِ دل لائی ہے
مجمعِ عام ہے اور آپ کا سودائی ہے
اشک پیتا ہوں تو لو دیتے ہیں چھالے دل کے
آہ کرتا ہوں تو پھر عشق کی رسوائی ہے

اب جشن اشک اے شب ہجراں کریں گے ہم

اب جشنِ اشک اے شبِ ہجراں کریں گے ہم
اپنی تباہیوں پہ چراغاں کریں گے ہم
خود تو کبھی نہ آئے گی ہونٹوں پہ اب ہنسی
ہاں دوسروں کے ہنسنے کا ساماں کریں گے ہم
کیا تھی خبر کہ حد سے گزر جائے گا جنوں
ہاتھوں سے اپنے چاک گریباں کریں گے ہم

غالب نے کی یہ عرض خداوند ذوالجلال

غالب دلی میں

غالب نے کی یہ عرض خداوندِ ذوالجلال
جنت سے کچھ دنوں کیلئے کر مجھے بحال
مہ وش مرے کلام کو سازوں پہ گائے ہیں
قسمت نے بعد مرنے کے کیا دن دکھائے ہیں
شاعر جو منحرف تھے وہ مرعوب ہو گئے
ایواں جو میرے نام سے منسوب ہو گئے

ایسی سردی نہ پڑی ایسے نہ دیکھے جاڑے

جاڑے
  
ایسی سردی نہ پڑی ایسے نہ دیکھے جاڑے
دو بجے دن کو اذاں دیتے تھے مرغ سارے
وہ گھٹا ٹوپ نظر آتے تھے دن کو تارے
سرد لہروں سے جمے جاتے تھے مے کے پیالے
ایک شاعر نے کہا چیخ کے ساغر بھائی
عمر میں پہلے پہل چمچے سے چائے کھائی

نہ خم و سبو ہوئے چور ابھی نہ حجاب پیر فغاں اٹھا

نہ خم و سبو ہوئے چور ابھی نہ حجابِ پیرِ فغاں اُٹھا
ابھی مست بادہ پرست ہیں ابھی لطفِ بادہ کہاں اٹھا
جو حضور چیں بہ جبیں ہوئے کہا کس نے شور فغاں اٹھا
رہے خیر برق نگاہ کی کوئی دل جلا، نہ دھواں اٹھا
یہ کہے زمانہ جواں ہے تو قدم ایسا مرد جواں اٹھا
جو نہ بار عشق اٹھا سکے تو بلا سے تیغ و سناں اٹھا

بگڑیں وہ ہم سے کہ ہم ان سے سب میں اک لذت ہوتی ہے

بگڑیں وہ ہم سے کہ ہم ان سے سب میں اک لذت ہوتی ہے
جینے میں بڑا لطف آتا ہے جب دل سے محبت ہوتی ہے
ہم کس سے پوچھیں تم ہی کہو، کچھ کام یہ جینا آیا بھی
ہم لوٹتے ہیں انگاروں پر، کچھ تم کو مسرت ہوتی ہے
دوزخ کو یہی جنت کر دے جنت کو یہی دوزخ کر دے
ہم تجھ کو بتائیں کیا ہمدم! کیا چیز محبت ہوتی ہے

درد درماں سے کم تو کیا ہو گا

درد درماں سے کم تو کیا ہو گا
یہی ہو گا کہ کچھ سوا ہو گا
کس قیامت کا سامنا ہو گا
بجھ گیا دل تو آہ کیا ہو گا
کھل گئے ہیں خوشی سے سب کے دہن
زخم دل کوئی چھو گیا ہو گا

Thursday 26 January 2017

عمارت پر نہ جا کچھ بھی نہیں شاہوں کی محفل میں

عمارت پر نہ جا کچھ بھی نہیں شاہوں کی محفل میں
محبت کا خزانہ ہے مِرے ٹوٹے ہوئے دل میں
جب آدھی رات پردہ ڈال دیتی ہے زمانے پر
کوئی دربار کرتا ہے مِرے کاشانۂ دل میں
نظر نے پا لیا ہے انتہائے عیشِ فانی کو
خوشی کے نام سے اب درد اٹھتا ہے مِرے دل میں

ابر اٹھا وہ ناگہاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں

ابر اٹھا وہ ناگہاں 
نغمہ زناں، ترانہ خواں 
تُند عناں، رواں دواں 
رقص کناں و پر فشاں 
ساقئ بادہ فام ہاں
ابر اٹھا وہ ناگہاں 
مُژدہ ہو خیلِ میکشاں 
ابر اٹھا وہ ناگہاں

سرد انگلی اپنے مفلس باپ کی پکڑے ہوئے

ٹھنڈی انگلیاں

سرد انگلی اپنے مفلس باپ کی پکڑے ہوئے
رو رہا ہے ایک بچہ اک دُکاں کے سامنے
اک کھلونے کی طرف انگلی اٹھا کر بار بار
کچھ نہیں کہتا ہے لیکن رو رہا ہے بار بار
باپ کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں ہے دنیا سیاہ
رخ پہ گردِ مفلسی ہے جیبِ خالی پر نگاہ

اک دن جو بہر فاتحہ اک بنت مہر و ماہ

فتنۂ خانقاہ

اک دن جو بہرِ فاتحہ اک بنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سُوئے خانقاہ
زُہاد نے اٹھائی جھجکتے ہوئے نگاہ
ہونٹوں پہ دب کے ٹوٹ گئی ضرب لا اِلٰہ
برپا ضمیرِ زُہد میں کہرام ہو گیا
ایماں، دلوں میں لرزہ بر اندام ہو گیا

Wednesday 25 January 2017

عشق میں قلب و جگر بھی نہ ہمارے نکلے

عشق میں قلب و جگر بھی نہ ہمارے نکلے
جو بھی نکلے وہ طرفدار تمہارے نکلے
کتنے عاشق ہوئے قربان تجھے معلوم نہیں
کتنے ظالم تیری نظروں کے اشارے نکلے
تیرے دریائے محبت میں، محبت سے کبھی
ڈوبنے والے جو ڈوبے، نہ کنارے نکلے

گاؤں کے بے چراغ رستے میں

بنجارن

گاؤں کے بے چراغ رستے میں
میلی چادر بچھا کے مٹی پر
یہ جو اندھے اداس دل والی
ایک پاگل دکھائی دیتی ہے
جس کی بے ربط گفتگو اکثر
بام و در کو سنائی دیتی ہے

زرد پتوں کے ڈھیر کی تہہ میں

کتبہ

زرد پتوں کے ڈھیر کی تہہ میں
میلے کاغذ چھپا گیا کوئی
جن پہ تازہ لہو سے لکھا ہے
روٹھ کر اس طرح نہ کرنا تھا
ہم نے اک ساتھ جینا مرنا تھا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا 
وہ تِری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست 
تُو مصیبت میں عجب یاد آیا 
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے 
پھر تِرا وعدۂ شب یاد آیا

کرتا اسے بے قرار کچھ دیر

کرتا اسے بے قرار کچھ دیر
ہوتا اگر اختیار کچھ دیر
کیا روئیں فریبِ آسماں کو
اپنا نہیں اعتبار کچھ دیر
آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات
سو جا دلِ بے قرار! کچھ دیر

یاس میں جب کوئی آنسو نکلا

یاس میں جب کوئی آنسو نکلا
اک نئی آس کا پہلو نکلا
لے اڑی سبزۂ خود رو کی مہک
پھر تِری یاد کا پہلو نکلا
میٹھی بولی میں پپیہے بولے
گنگناتا ہوا جب تُو نکلا

اٹھتا شباب اور فضا لطف نور کی

اٹھتا شباب اور فضا لطفِ نور کی
ماجؔد بدن تھا اس کا کہ چھاگل سرور کی
جس کی چھنک دھنک ہمیں مدہوش کر گئی
اور صبر یہ کہ ہم نے وہ چُوڑی نہ چُور کی
شہکار اک خدا کا تھا، مل کر جسے لگا
جیسے وہ کیفیت تھی کسی اَوجِ طور کی

نشیلا ترا ہر قدم دیکھتے ہیں

نشیلا ترا ہر قدم دیکھتے ہیں
سرِ دشت آہو کا رم دیکھتے ہیں
سرِ سرو بھی تیری قامت کے آگے
لگے جیسے اندر سے خم دیکھتے ہیں
مناظر جہاں ہوں دل آزاریوں کے
شہِ وقت اس سمت کم دیکھتے ہیں

ساعت وصال یار کی یوں ہے نگاہ میں

ساعت وصالِ یار کی یوں ہے نگاہ میں
جیسے معاً کہیں سے اضافہ ہو جاہ میں
اترے تھی صحنِ شوق میں جو بامِ یار سے
تھا کیا سرور اس نگہِ گاہ گاہ میں
دیکھا نہ زندگی میں پھر ایسا کوئی نشیب
کیا دلکشی تھی اس کے زنخداں کے چاہ میں

تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر

تمام عمر کی تنہائی کی سزا دے کر
تڑپ اٹھا میرا منصف بھی فیصلہ دے کر
میرے خدا، یہ برہنہ لباس پوش ہیں کون
عذاب کیا یہ دیا مجھ کو چشم وا دے کر
میں اب مروں کہ جیوں مجھ کو یہ خوشی ہے بہت
اسے سکوں تو ملا، مجھ کو بد دعا دے کر

کیا خبر تھی پھر نیا وقت سفر آ جائے گا

کیا خبر تھی پھر نیا وقتِ سفر آ جائے گا
میں تو سمجھا تھا سفر کے بعد گھر آ جائے گا
اس غلط فہمی میں تنہا منزلیں طے ہو گئیں
چل پڑوں گا میں تو کوئی ہم سفر آ جائے گا
اتنی بے پروائیوں سے بھولنا اچھا نہیں
یہ ہنر ہے تو ہمیں بھی یہ ہنر آ جائے گا

درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لئے

درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لیے
سب کے سب آنسو نہیں ہوتے بہانے کے لیے
عمر تنہا کاٹ دی وعدہ نِبھانے کے لیے
عہد باندھا تھا کسی نے آزمانے کے لیے
یہ قفس ہے گھر کی زیبائش بڑھانے کے لیے
یہ پرندے تو نہیں ہیں آشیانے کے لیے

ساقی نے جسے چاہا مستانہ بنا ڈالا

ساقی نے جسے چاہا مستانہ بنا ڈالا
جس دل کی طرف دیکھا پیمانہ بنا ڈالا
کب جوششِ گریہ نے طوفاں نہ اٹھا ڈالے 
کب اشک کے قطرے کو دریا نہ بنا ڈالا
اک قیس کو لیلیٰ نے مجنون بنایا تھا 
تم نے تو جسے چاہا، دیوانہ بنا ڈالا 

جو مجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں

جو مجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں
یہ جلوہ یار کا ہے، میں نہیں ہوں
کہا منصور نے سولی پہ چڑھ کر
انالحق کی صدا ہے، میں نہیں ہوں
عبا پہنے ہوئے مٹی کی مورت
کوئی بہروپیا ہے، میں نہیں ہوں

ادا پر تری دل ہے آنے کے قابل

ادا پر تِری دل ہے آنے کے قابل
مِری جان ہے تجھ پہ جانے کے قابل
تِرے مصحف رخ کو اللہ رکھے
یہ قرآں ہے ایمان لانے کے قابل
ہوا رازِ دل سب پہ ظاہر تو اب کیا
چھپاتے تھے جب تھا چھپانے کے قابل

آنکھوں نے راز کھولا بہکی زباں ہماری

آنکھوں نے راز کھولا، بہکی زباں ہماری
لے ڈوبِیں ہم کو آخر، بے تابیاں ہماری
محفل میں دیکھ کر چپ، وه چپ نہ ہم کو سمجھیں
خلوت میں چل کے دیکھیں بے باکیاں ہماری
کیا خاک کج ادائی کی ہو وہاں شکایت
جب سیدھی باتیں ٹھہریں گستاخیاں ہماری

Monday 23 January 2017

حالات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی

حالات کی بھیگی رات بھی ہے جذبات کا تیز الاؤ بھی
میں کون سی آگ میں جل جاؤں، اے نکتہ ورو سمجھاؤ بھی
ہر چند نظر نے جھیلے ہیں ہر بار سنہرے گھاؤ بھی 
ہم آج بھی دھوکا کھا لیں گے تم بھیس بدل کر آؤ بھی
گرداب کے خونیں حلقوں سے جب کھیل چکی ہے ناؤ بھی
پتوار بدلنا کیا معنی، ملاحوں کو سمجھاؤ بھی 

ڈرتے نہیں زخموں سے ہم دار و رسن والے

ڈرتے نہیں زخموں سے، ہم دارورسن والے 
پتھر نہ اٹھا ہم پر شیشے کے بدن والے
سونے کی لحد میں بھی، شاید نہ سکوں پائیں
لاشے ہیں یہاں جتنے، ریشم کے کفن والے
جو یاد دلاتے تھے، اک بھولنے والے کی
جھونکے وہ کہاں یارو، پورب کی پون والے

ندیاں بن گئیں ڈھلوان کے ہر گاؤں میں

ندیاں بن گئیں ڈھلوان کے ہر گاؤں میں
اب تو سیلاب سماتے نہیں دریاؤں میں
کیوں وہاں چھائے، جہاں انکی ضرورت ہی نہیں
کاش بادل یہ برستے کبھی صحراؤں میں
ان کو پیڑوں میں چھپی آگ دکھائے کوئی
وہ جو بیٹھے ہیں چناروں کی گھنی چھاؤں میں

دیوانے دیوانے ٹھہرے کھیل گئے انگاروں سے

دیوانے، دیوانے ٹھہرے کھیل گئے انگاروں سے
آبلہ پائی اب کوئی پوچھے ان ذہنی بیماروں سے
بات تو جب ہے شعلے نکلیں بربطِ دل کے تاروں سے
شور نہیں نغمے پیدا ہوں تیغوں کی جھنکاروں سے
کس نے بسایا تھا اور ان کو کس نے یوں برباد کیا
اپنے لہو کی بو آتی ہے ان اجڑے بازاروں سے

رات کے سمندر میں غم کی ناؤ چلتی ہے

رات کے سمندر میں غم کی ناؤ چلتی ہے
دن کے گرم ساحل پر زندہ لاش جلتی ہے
اک کھلونا ہے گیتی، توڑ توڑ کے جس کو
بچوں کی طرح دنیا روتی ہے مچلتی ہے
فکر و فن کی شہزادی کس بلا کی ناگن ہے
شب میں خون پیتی ہے دن میں زہر اگلتی ہے

Sunday 22 January 2017

ساگر کے ساحل سے لائی سرد ہوا کیسا سندیس

سندیس

ساگر کے ساحل سے لائی سرد ہوا کیسا سندیس
درد کی دھوپ میں جھلسنے شاعر گھوم نہیں اب دیس بدیس
عشق کا درد، جنوں، وحشت، بیتے جگ کی باتیں ہیں
اب تو چاند سرِ بام آیا اب سکھ کی راتیں ہیں
یاد کبھی اس پونم کی تجھے اور نہیں تڑ پائے گی
آپ ہی آپ وہ دل کی رانی یہلو میں آ جائے گی

کچھ لوگ کہ اودے نیلے پیلے کالے ہیں

کچھ رنگ ہیں

کچھ لوگ کہ اودے، نیلے پیلے، کالے ہیں
دھرتی پہ دھنک کے رنگ بکھیرنے والے ہیں
کچھ رنگ چرا کے لائیں گے یہ بادل سے
کچھ چوڑیوں سے کچھ مہندی سے کچھ کاجل سے
کچھ رنگ بسنت کے رنگ ہیں رنگ پتنگوں کے
کچھ رنگ ہیں جو سردار ہیں سارے رنگوں میں

یہ کیا شکل بنائی دیوانے سودائی

یہ کیا شکل بنائی

یہ کیا شکل بنائی دیوانے سودائی
تجھ کو راس نہ آئی
رین اندھیری، دکھیاروں کو
پل پل کرتے بین کٹے
پورب میں جب تارا چمکے
تب جا کر یہ رین کٹے

یہ کسک دل کی دل میں چبھی رہ گئی

یہ کسک دل کی دل میں، چبھی رہ گئی
زندگی میں، تمہاری کمی رہ گئی
رات کی بھیگی بھیگی چھتوں کی طرح
میری پلکوں میں تھوڑی نمی رہ گئی
میں نے روکا نہیں وہ چلا بھی گیا
بے بسی دور تک، دیکھتی رہ گئی

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے
مجھ میں رہتا ہے کوئی جانی دشمن میرا
خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے

آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا

آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

وہ بجھے گھروں کا چراغ تھا یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو

وہ بجھے گھروں کا چراغ تھا یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
اسے لے گئی ہے کہاں ہوا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
کئی لوگ جان جائیں گے مِرے قاتلوں کی تلاش میں
مِرے قتل میں مِرا ہاتھ تھا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو
وہ تمام دنیا کے واسطے جو محبتوں کی مثال تھا
وہی اپنے گھر میں تھا بے وفا، یہ کبھی کسی کو خبر نہ ہو

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو
آپ کا گھر ہے آیا جایا کرو
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
روپ بڑھتا ہے مسکرایا کرو
حد سے بڑھ کر حسین لگتے ہو
جھوٹی قسمیں ضرور کھایا کرو

جو تیرے رازداں تھے بڑے معتبر ملے

جو تیرے رازداں تھے بڑے معتبر ملے
کچھ نیم آشنا ملے، کچھ بے خبر ملے
ملتے ہیں یوں وہ صبح کے ہنگام جس طرح
بے ساختہ ثواب نمازِ سحر ملے
مجھ کو جوابِ خط کی ضرورت نہیں مگر
صورت تو اس کی دیکھ لوں گر نامہ بر ملے

ہم بتوں کو جو پیار کرتے ہیں

ہم بتوں کو جو پیار کرتے ہیں
نقلِ پروردگار کرتے ہیں
کیا محبت بھی کوئی پیشہ ہے 
لوگ کیوں اتنے پیار کرتے ہیں
اتنی قسمیں نہ کھاؤ گھبرا کر
جاؤ ہم اعتبار کرتے ہیں

وہ آ گئے تو قلب کی تالیف ہو گئی

وہ آ گئے تو قلب کی تالیف ہو گئی
رخصت ہوئے تو پھر وہی تکلیف ہو گئی
محشر میں اک سوال کیا تھا کریم نے
مجھ سے وہاں بھی آپ کی تعریف ہو گئی
خود رو کہانیوں کے یہی رنگ ڈھنگ ہیں
آنکھیں ملیں، کتاب کی تصنیف ہو گئی

دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر

دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر
یہ کالے کوس کی پر ہول رات ہے ساتھی
کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر
صدائیں آتی ہیں اجڑے ہوئے جزیروں سے
کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر

شکوہ بہ طرز عام نہیں آپ سے مجھے

شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے
ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے
کہتا، سلوک آپ کے ایک ایک سے مگر
مطلوب انتقام نہیں آپ سے مجھے
اے منصفو! حقائق و حالات سے الگ
کچھ بحث خاص و عام نہیں آپ سے مجھے

کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی

کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی
رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی
فکر یہ تھی کہ شبِ ہجر کٹے گی کیوں کر
لطف یہ ہے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی
شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ
رنج یہ ہے کہ تماشا نہ دکھایا کوئی

اس چوٹ کو پوچھے کوئی اس خستہ جگر سے

اس چوٹ کو پوچھے کوئی اس خستہ جگر سے
اترا جو تِرے دل سے، گرا تیری نظر سے
اس طرح گزرتے ہیں تِری راہگزر سے
جو پاؤں کا ہے کام وہ ہم لیتے ہیں سر سے
دو چار بہے اشک تو کیا دیدۂ تر سے
بارش کا مزا یہ ہے کہ جو ٹوٹ کے برسے

آشفتگی کسی کی اثر کچھ تو کر گئی

آشفتگی کسی کی اثر کچھ تو کر گئی
بن بن کے رخ پہ زلف تمہارے بکھر گئی
کیا کہیے کس طرح سے جوانی گزر گئی
بدنام کرنے آئی تھی بدنام کر گئی
کیا کیا رہی سحر کو شبِ وصل کی تلاش
کہتا رہا ابھی تو یہیں تھی، کدھر گئی

شوخی نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں

شوخی نے تیرے کام کیا اک نگاہ میں
صوفی ہے بت کدے میں، صنم خانقاہ میں
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں
اس توبہ پر ہے ناز تجھے زاہد اس قدر
جو ٹوٹ کر شریک ہو میرے گناہ میں

رنگ آ جائے گا رنگیں نظراں آئیں کہیں

رنگ آ جائے گا، رنگیں نظراں آئیں کہیں
بزم بے رنگ ہے، خونیں جگراں آئیں کہیں
نہیں اب یاد میں اس شوخ کی فریاد و فغاں
شہر خاموش ہے شوریدہ سراں آئیں کہیں
بجھ نہ جائیں کہیں اب شمع کے ساتھ آنکھیں بھی
حالتِ آخرِ شب خوش خبراں آئیں کہیں

بھٹکتا پھر رہا ہوں جستجو بن

بھٹکتا پھر رہا ہوں جستجو بِن
سراپا آرزو ہوں آرزو بن
کوئی اس شہر کو تاراج کر دے
ہوئی ہے میری وحشت ہاؤ ہو بن
یہ سب معجز نمائی کی ہوس ہے
رفوگر آئے ہیں تار رفو بن

جانے کہاں گیا ہے وہ وہ جو ابھی یہاں تھا

جانے کہاں گیا ہے وہ وہ جو ابھی یہاں تھا
وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا
تا لمحہ گزشتہ یہ جسم اور سائے
زندہ تھے رائیگاں میں، جو کچھ تھا رائیگاں تھا
اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا

قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں

بیادِ فیض

قلم بدست ہوں حیران ہوں کہ کیا لکھوں
میں تیری بات کہ دنیا کا تذکرہ لکھوں
لکھوں کہ تُو نے محبت کی روشنی لکھی
تِرے سخن کو ستاروں کا قافلہ لکھوں
جہاں یزید بہت ہوں، حسین اکیلا ہو
تو کیوں نہ اپنی زمیں کو بھی کربلا لکھوں

جب تجھے یاد کریں کار جہاں کھینچتا ہے

جب تجھے یاد کریں کارِ جہاں کھینچتا ہے
اور پھر عشق وہی کوہِ گراں کھینچتا ہے
کسی دشمن کا کوئی تِیر نہ پہنچا مجھ تک
دیکھنا ، اب کے مِرا دوست کماں کھینچتا ہے
عہدِ فرصت میں کسی یارِ گزشتہ کا خیال
جب بھی آتا ہے تو جیسے رگِ جاں کھینچتا ہے

میں کس کا بخت تھا مری تقدیر کون تھا

میں کس کا بخت تھا مِری تقدیر کون تھا
تُو خواب تھا تو خواب کی تعبیر کون تھا
میں بے گلیم لائقِ دشنام تھا، مگر
اہلِ قبا میں صاحبِ توقیر کون تھا
اب قاتلوں کا نام و نشان پوچھتے ہو کیا
ایسی محبتوں سے بغل گیر کون تھا

ستم گری کا ہر انداز محرمانہ لگا

ستم گری کا ہر انداز محرمانہ لگا 
میں کیا کروں مِرا دشمن مجھے برا نہ لگا
ہر اک کو زعم تھا کس کس کو ناخدا کہتے
بھلا ہُوا کہ سفینہ کنارے جا نہ لگا
مِرے سخن کا قرینہ ڈبو گیا مجھ کو
کہ جس کو حال سنایا اسے فسانہ لگا

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے 
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

حسینہ خیال سے

حسینۂ خیال سے

مجھے دے دے رسیلے ہونٹ
معصومانہ پیشانی ، حسیں آنکھیں
کہ میں ایک بار پھر 
رنگینیوں میں غرق ہو جاؤں
میری ہستی کو تیری اک نظر 
آغوش میں لے لے

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے

ہم نے سب شعر میں سنوارے تھے
ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
رنگ و خوشبو کے، حسن و خوبی کے
تم سے تھے جتنے استعارے تھے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے

تیری نظروں کا فسوں دشمن دیں ہے ساقی​

تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی​
ورنہ پینے میں کوئی بات نہیں ہے ساقی​
جو تِرے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی​
وہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقی​
اس مۓ ناب سے کیا فائدہ، جب ساغر میں​
جلوہ افروز تِری چینِ جبیں ہے ساقی​

تو نہیں حسن چارہ ساز تو ہے

تُو نہیں حسنِ چارہ ساز تو ہے
تیری صورت نظر نواز تو ہے
تو اگر باوفا نہیں، نہ سہی
مجھ کو اپنی وفا پہ ناز تو ہے
خود فریبی سہی، وفاداری
دل بہلنے کا ایک راز تو ہے

مجھ کو کبھی کبھی سوئے اغیار دیکھنا

مجھ کو کبھی کبھی سُوئے اغیار دیکھنا
اس شوخ کی نگاہِ طلب گار دیکھنا
چشمِ نظارہ بیں میں ہے یہ کیا رہِ کشود
جب دیکھنا وہی در و دیوار دیکھنا
دہرائے گا وہ اپنی کوئی داستانِ غم
وہ آ رہا ہے پھر مِرا غمخوار دیکھنا

Saturday 21 January 2017

ہم سے کیا کرو نہ میاں تم ٹھٹھولیاں

ہم سے کیا کرو نہ میاں تم ٹھٹھولیاں
سنتے بھی ہو جو بولتے ہیں لوگ بولیاں
ہم اس تمام ناز کے کشتوں میں ہیں کہ ہائے
مر مر گئی ہیں جس کی اداؤں پہ بولیاں
ٹک کسمسائے ہوتی ہیں سو سو جگہ سے چاک
ان خوش چھبوں کی ہائے رے یہ تنگ چولیاں

یہ دم اس کے وقت رخصت بہ صد اضطراب الٹا

یہ دم اس کے وقتِ رخصت بہ صد اضطراب الٹا
کہ بہ سوئے دل مژہ سے وہیں خونِ ناب الٹا
سرِ لوح اس کی صورت کہیں لکھ گیا تھا مانی
اسے دیکھ کہ نہ میں نے ورقِ کتاب الٹا
یہ الٹ گئی ہے قسمت کہ جو دل کسی کو دوں میں
وہ مرے ہی سر سے مارے اسے کر خراب الٹا

دل چیز کیا ہے چاہیے تو جان لیجیے

دل چیز کیا ہے، چاہئے تو جان لیجئے
پر بات کو بھی میری ذرا مان لیجئے
مریے تڑپ تڑپ کے دِلا کیا ضرور ہے
سر پر کسی کی تیغ کا احسان لیجئے
آتا ہے جی میں چادر ابرِ بہار کو
ایسی ہوا میں سر پہ ذرا تان لیجئے

ہو چکا ناز منہ دکھائیے بس

ہو چکا ناز، منہ دکھائیے بس
غصہ موقوف کیجے، آئیے بس
فائدہ کیا ہے یوں کھنچے رہنا
میری طاقت نہ آزمائیے بس
دوست ہوں میں تِرا نہ کہیے یہ حرف
مجھ سے جھوٹی قسم نہ کھائیے بس

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبۂ خوبئ تقدیر بھی تھا
تُو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

وہ میری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا

وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطئ عنواں سمجھا
شرحِ اسبابِ گرفتارئ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
بدگمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا

Friday 20 January 2017

ڈس چکیں جب مرے دل کو خود میری تنہائیاں

ڈس چکیں جب مِرے دل کو خود میری تنہائیاں
شہرِ غم میں بج اٹھی ہیں دور تک شہنائیاں
پھول، نغمہ، چاند تارے، جام، صہبا، چاندنی
اک تبسم آپ کا، اور سینکڑوں رعنائیاں
دے دئیے پھولوں کو کتنے نیلے پیلے پیرہن
معجزے سے کم نہیں ہیں خاک کی انگڑائیاں

کون رکھے گا وقار عاشقی میری طرح

کون رکھے گا وقارِ عاشقی میری طرح 
آپ کو سمجھا ہے کس نے زندگی میری طرح
مجھ کو سن لو، میں غنیمت ہوں ابھی تک دوستو
کون بخشے گا غزل کو نغمگی میری طرح
ہر نظر میں میں نے دیکھی بیوفائی کی چمک
کون اپنے گھر میں ہو گا اجنبی میری طرح

جفا کا ساتھ دیا بے رخی کا ساتھ دیا

جفا کا ساتھ دیا، بے رخی کا ساتھ دیا
مِرے حبیب! تِری ہر خوشی کا ساتھ دیا
پکارتا ہی رہا گو مجھے غمِ جاناں
تمام عمر غمِ زندگی کا ساتھ دیا
کیا جو چاک گریباں تو پھول کھل اٹھے
بہار نے میری دیوانگی کا ساتھ دیا

مرے دل کو زخموں کی سوغات دے دو

مِرے دل کو زخموں کی سوغات دے دو
مِری خشک آنکھوں کو برسات دے دو
بھٹکتا رہا ہوں میں صحرا بہ صحرا
مِرے دل کو ربطِ خیالات دے دو
فضاؤں سے برسو گھٹاؤں کی صورت
زمیں کو لباسِ نباتات دے  دو

Thursday 19 January 2017

مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا

کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا
ہائے وہ خودرفتگی الجھے ہوۓ سب سر کے بال
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا
دیکھتا تھا جس طرف اپنا ہی جلوہ تھا عیاں
میں نہ تھا وحشی کوئی اس آئینہ خانے میں تھا

کالی کالی آنکھیں ہیں گوری گوری رنگت ہے

کالی کالی آنکھیں ہیں، گوری گوری رنگت ہے
لمبے لبے گیسو ہیں اور بھولی بھالی صورت ہے
آڑی آڑی چتون ہے اور ٹیڑھے ٹیڑھے ابرو ہیں
نیچی نیچی نظریں ہیں اور کچھ کچھ دل میں الفت ہے
رہ رہ کر گھبراتا ہے، دل شام سے امڈا آتا ہے
تازہ تازہ عشق ہوا ہے دھیمی دھیمی وحشت ہے

یہ سنتے ہیں ان سے یہاں آنے والے

یہ سنتے ہیں ان سے یہاں آنے والے
جہنم میں جائیں، وہاں جانے والے
ترس کھا ذرا دل کو ترسانے والے
اِدھر دیکھتا جا، اُدھر جانے والے
وہ جب آگ ہوتے ہیں غصہ سے مجھ پر
تو بھڑکاتے ہیں اور چمکانے والے

دل رکھ تو دیا ہے نگہ یار کے آگے

دل رکھ تو دیا ہے نگہِ یار کے آگے
اف کر نہیں سکتا ہوں خریدار کے آگے
آتی نہیں اب تک اسی باعث سے قیامت
کیا پیش چلے گی تِری رفتار کے آگے
میں حسن سے سکتے میں وہ ہے عشق سے حیراں
دیوار کھڑی ہو گئی دیوار کے آگے

سکتہ ہے مجھ کو کوچۂ دلدار دیکھ کر

سکتہ ہے مجھ کو کوچۂ دلدار دیکھ کر
دیوار بن گیا در و دیوار دیکھ کر
دیکھا نہ اور کچھ رخِ دلدار دیکھ کر
آنکھیں سفید ہو گئیں رخسار دیکھ کر
لگتی ہے آگ جوشِ خریدار دیکھ کر
جلتا ہوں تیری گرمئ بازار دیکھ کر

اپنے تئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے

اپنے تئیں تو ہر گھڑی غم ہے الم ہے داغ ہے
یاد کرے ہمیں کبھی، کب یہ تجھے دماغ ہے
جی کی خوشی نہیں گر و سبزہ و گل کے ہاتھ کچھ
دل ہو شگفتہ جس جگہ، وہ ہی چمن، ہے باغ ہے
کس کی یہ چشمِ مست نے بزم کو یوں چھکا دیا
مثلِ حباب سرنگوں شرم سے ہرا باغ ہے

کبھی خوش بھی کیا ہے دل کسی رند شرابی کا

کبھی خوش بھی کیا ہے دل! کسی رندِ شرابی کا
بھِڑا دے منہ سے منہ ساقی ہمارا اور گلابی کا
چھپے ہرگز نہ مثلِ بُو، وہ پردوں کے چھپاۓ سے
مزہ پڑتا ہے جس گل پیرہن کو بے حجابی کا
شرار و برق کی سی بھی نہیں یہاں فرصتِ ہستی
فلک نے ہم کو سونپا کام جو کچھ تھا شتابی کا

مسکراؤ خوشی کی بات کرو

مسکراؤ، خوشی کی بات کرو
رونے والو! ہنسی کی بات کرو
یہ اندھیرے کے تذکرے کب تک
دوستو! روشنی کی بات کرو
خونفشاں موت آئے گی اک دن
گل فشاں زندگی کی بات کرو

مزدوروں کا پیغام نونہالان چمن اہل ہنر جاتے ہیں

مزدوروں کا پیغام

نونہالانِ چمن، اہلِ ہنر جاتے ہیں
جوشِ زن قلب میں ہے شوقِ سفر جاتے ہیں
صورتِ خاک رہے مثلِ شرر جاتے ہیں
یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کدھر جاتے ہیں
لو چلا قافلہ کوہکنِ خانہ بدوش
کل سے ہو جائیں گی تیشوں کی صدائیں خاموش

شوق کی نکتہ دانیاں نہ گئیں

شوق کی نکتہ دانیاں نہ گئیں
رات بیتی،۔ کہانیاں نہ گئیں
حسن نے دی ہزار بار شکست
عشق کی لنترانیاں نہ گئیں
نقش بن بن کے رہ گئیں دل میں
سرسری نوجوانیاں نہ گئیں

یہیں پہ رہنے دے صیاد آشیانہ مرا

یہیں پہ رہنے دے صیاد! آشیانہ مِرا

یہ باغ تیرا ہے، یہ پھول تیرے ہیں، چُن لے
گلوں کے ریشوں سے دامِ حسیں کوئی بُن لے
ابھی بچھا نہ اسے، ایک التجا سُن لے
مِرے بغیر اجڑ جائے گا ٹھکانہ مِرا
یہیں پہ رہنے دے صیاد! آشیانہ مِرا

زمانے پہ چھاتی ہیں جب کالی راتیں

کون

زمانے پہ چھاتی ہیں جب کالی راتیں
مِرے دل سے کون آ کے کرتا ہے باتیں 
چمکتے ہیں جب جھلملاتے ستارے
مِرے من میں کیوں کوندتے ہیں شرارے 
اٹھاتی ہے جب کہکشاں چندر گاگر
ابلتا ہے کیوں میرے اشکوں کا ساگر 

گاؤں: یہ تنگ و تار جھونپڑیاں گھاس پھوس کی

گاؤں 

یہ تنگ و تار جھونپڑیاں گھاس پھوس کی
اب تک جنہیں ہوا نہ تمدن کی چھو سکی
ان جھونپڑوں سے دور اس پار کھیت کے
یہ جھاڑیوں کے جھنڈ یہ انبار ریت کے
یہ سادگی کے رنگ میں ڈوبا ہوا جہاں
ہنگامۂ جہاں ہے سکوں آشنا جہاں

جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

جاڑے کی بہاریں

جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانتا ہے

عشق پھر رنگ وہ لایا ہے کہ جی جانتا ہے
دل کا یہ رنگ بنایا ہے کہ جی جانتا ہے
ناز اٹھانے میں جفائیں تو اٹھائِیں، لیکن 
لطف بھی ایسا اٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے
زخم اس تیغ نگہ کا مِرے دل نے ہنس ہنس
اس مزیداری سے کھایا ہے کہ جی جانتا ہے

مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا

مِرا خط ہے جہاں یارو! وہ رشکِ حور، لے جانا
کسی صورت سے تم واں تک مرا مذکور لے جانا
اگر وہ شعلہ رُو پوچھے مرے دل کے پھپولوں کو
تو اس کے سامنے اک خوشۂ انگور لے جانا
جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اسکے رنگ پر زردی
تو یارو! تم گلِ صد برگ با کافور لے جانا

پھر آن کے منت سے ملا ہم سے وہ لالا

پھر آن کے منت سے ملا، ہم سے وہ لالا
المنتہ للہ تقدس و تعالٰے
کر قتل، مجھے تُو نے ہمیشہ کو جلایا
ظالم! تجھے جیتا رکھے اللہ تعالٰے
دیکھ اب تو مجھے ہر کوئی کہتا ہے یہی، آہ
”پھر قبر سے اللہ نے مجنوں کو نکالا“

Wednesday 18 January 2017

وہ زندگی جو داد فنا مانگتی پھرے

وہ زندگی، جو دادِ فنا مانگتی پھِرے
مشکل جو آ پڑے تو دعا مانگتی پھرے
طوفان کی بہشت میں اس کا گزر کہاں
کشتی جو ساحلوں کی ہوا مانگتی پھرے
ہے اس نظر کو بھی تِری حسرت جو بے ادب
شب سے سکوں نہ دن سے ضیا مانگتی پھرے

امید فتح رکھو اور علم اٹھائے چلو

ترانہ

امیدِ فتح رکھو اور علم اٹھائے چلو
عمل کے ساتھ مقدر کو آزمائے چلو
امیدِ فتح رکھو۔۔۔

مسافروں کیلئے مسافت کا زکر کیا معنی
قضا پکار رہی ہے قدم بڑھائے چلو

جو کچھ ہوا، ہوا کہ محبت بلا کی تھی

جو کچھ ہوا، ہوا کہ محبت بلا کی تھی
اس وصل میں فراق کی شدت بلا کی تھی
میرا وجود بھی کسی صحرا سے کم نہ تھا
اس کی سپردگی میں بھی وحشت بلا کی تھی
اس نے کہا کے ہم نے تمہیں سونپ دی حیا
اور میں بہک گیا کہ اجازت بلا کی تھی

رات کے پردے سرکنے لگے اب کیا سوئیں

رات کے پردے سرکنے لگے اب کیا سوئیں
شیشے کھڑکی کے چمکنے لگے اب کیا سوئیں
نیند کا شبنمی ماحول اڑا جاتا ہے
صبح کے رنگ دہکنے لگے اب کیا سوئیں
گلِ خورشید کھلا شاخِ افق پر دیکھو
باغ، بن سارے مہکنے لگے اب کیا سوئیں

سفر ہو چار سو کا اور اک منزل سے ہو آئیں

سفر ہو چار سُو کا اور اک منزل سے ہو آئیں
ذرا ہم حال سے نکلیں تو مستقبل سے ہو آئیں
شمال و شرق میں جھانکیں جنوب و غرب میں اتریں 
مگر اس سے تو اچھا ہے کسی کے دل سے ہو آئیں
مگر یکسانیت میں ایسی یکسوئی قیامت ہے 
کہ بیٹھے بیٹھے خلوت میں تری محفل سے ہو آئیں

کچھ تو تسکین نارسائی دے

کچھ تو تسکینِ نارسائی دے
خواب ہی میں سہی، دکھائی دے
ہمہ تن سامعہ و باصرہ ہوں
اب دکھائی دے یا سنائی دے
بے یقینی کے اس اندھیرے میں
ہاتھ کو ہاتھ کیا سجھائی دے

پائی ہے جگہ پاکی دامان نظر میں

پائی ہے جگہ، پاکئ دامانِ نظر میں
خوشبوئے حیا نے تری چادر سے نکل کر
کیا چیز تھی ساقی! وہ پسِ پردۂ مینا
جو سرخ پری بن گئی ساغر سے نکل کر
دیکھا جو کہیں گرمِ نظر بزمِ عدو میں
وہ ڈانٹ گئے مجھ کو برابر سے نکل کر

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں

وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
بے زبانی ترجمانِ شوقِ بے حد ہو تو ہو 
ورنہ پیشِ یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں
مِٹ رہی ہیں دل سے یادیں روزگارِ حسن کی
اب نظر کاہے کو آئیں گی یہ تصویریں کہیں

سب ترے دام تمنا میں ہیں اے یار بندھے

سب تِرے دامِ تمنا میں ہیں اے یار بندھے 
جن بندھے، اِنس بندھے، کافر و دیندار بندھے
دیکھنے ہی میں ہیں وہ حلقۂ گیسو نازک
جن میں کتنے ہی دلہائے گراں بار بندھے
تم اگر سیر کو نکلو تو پھنسیں دل لاکھوں
دل شکاری کا وہ عالم، دمِ رفتار بندھے

اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بار انتظار

اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بارِ انتظار
کس طرح کاٹے کوئی لیل و نہارِ انتظار
ان کی الفت کا یقیں ہو ان کے آنے کی امید
ہوں یہ دونوں صورتیں تو ہے بہارِ انتظار
جان و دل کا حال کیا کہیے فراقِ یار میں
جان مجروحِ الم ہے، دل فگارِ انتظار

اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار

اب کسی کو بھی نظر آتی نہیں کوئی درار
گھر کی ہر دیوار پر چپکے ہیں اتنے اشتہار
آپ بچ کر چل سکیں ایسی کوئی صورت نہیں
رہگزر گھیرے ہوئے مردے کھڑے ہیں بیشمار
روز اخباروں میں پڑھ کر یہ خیال آیا ہمیں
اس طرف آتی تو ہم بھی دیکھتے فصلِ بہار

تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں

تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں
کمال یہ ہے کہ پھر بھی تمہیں یقین نہیں
بہت مشہور ہے، آئیں ضرور آپ یہاں
یہ ملک دیکھنے لائق تو ہے حسین نہیں
میں بے پناہ اندھیروں کو صبح کیسے کہوں
میں ان نظاروں کا اندھا تماش بین نہیں

کھنڈر بچے ہوئے ہیں عمارت نہیں رہی

کھنڈر بچے ہوئے ہیں، عمارت نہیں رہی
اچھا ہوا کہ سر پہ کوئی چھت نہیں رہی
کیسی مشعلیں لے کے چلے تیرگی میں آپ
جو روشنی تھی وہ بھی سلامت نہیں رہی
ہم نے تمام عمر اکیلے سفر کیا
ہم پر کسی خدا کی عنایت نہیں رہی

مراد شکوہ نہیں لطف گفتگو کے سوا

مراد شکوہ نہیں لطفِ گفتگو کے سوا
بچا ہے پیرہنِ جاں میں کیا رفو کے سوا
ہوا چلی تھی ہر اک سمت اس کو پانے کی
نہ کچھ بھی ہاتھ لگا گردِ جستجو کے سوا
کسی کی یاد مجھے بار بار کیوں آئی
اس ایک پھول میں کیا شے تھی رنگ و بو کے سوا

شہر میں ہم سے کچھ آشفتہ دلاں اور بھی ہیں

شہر میں ہم سے کچھ آشفتہ دِلاں اور بھی ہیں
ساحلِ بحر پہ قدموں کے نشاں اور بھی ہیں
ریت کے تودے چمک اٹھتے ہیں جب ظلمت میں
ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ یہاں اور بھی ہیں
کیسے منظر تھے کہ شیشوں کی طرح ٹوٹ گئے
مگر آنکھوں میں کئی خواب گراں اور بھی ہیں

دن تری یاد میں ڈھل جاتا ہے آنسو کی طرح

دن تِری یاد میں ڈھل جاتا ہے آنسو کی طرح
رات تڑپاتی ہے اک نشتر پہلو کی طرح
جانے کس سوچ میں ڈوبا ہوا تنہا تنہا
دل کا عالم ہے کسی سروِ لبِ جُو کی طرح
ہائے وحشت کوئی منزل ہو ٹھہرتا ہی نہیں
وقت ہے دام سے چھُوٹے ہوئے آہو کی طرح

مجھ کو آتا نہیں ظالم کی اطاعت کرنا

مجھ کو آتا نہیں ظالم کی اطاعت کرنا 
میری تاریخ میں لکھا ہے بغاوت کرنا
گو کہ یہ کام ضروری بھی نہیں ہے اتنا 
دل کی بس ضد ہے تِرے ساتھ محبت کرنا
لفظ میراث میں چھوڑے ہیں تو ڈر لگتا ہے
مِری اولاد سے مشکل ہے حفاظت کرنا

مرے لشکر کے کماندار مرے قاتل تھے

مِرے لشکر کے کماندار مِرے قاتل تھے
مِرے دشمن تو نہیں، یار مرے قاتل تھے
میں نے خود خون دیا تیغِ عدو کو، ورنہ
بھری دنیا میں بڑے خوار مرے قاتل تھے
کتنا آساں تھا مِرے قتل کا لمحہ ان پر
کیسی مشکل سے یہ دو چار مرے قاتل تھے

دل لگی سی دل لگانے سے رہی

دل لگی سی دل لگانے سے رہی
ایک رونق اس بہانے سے رہی
اس قدر صدمے پڑے ہیں جان پر
زندگی اب مسکرانے سے رہی
ایک تو پہلو بدلتے بج گیا
آج شب پھر نیند آنے سے رہی

Tuesday 17 January 2017

حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن 
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
وہ تیرے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف
پنکھڑی کوجو تیرے لب کا بدل کہتے ہیں

کھلا کھلا ہو یہ جہاں دھلا دھلا سماج ہو

دعائیہ کلام

کھُلا کھُلا ہو یہ جہاں، دُھلا دُھلا سماج ہو
تِری زمیں پر اے خدا، محبتوں کا راج ہو
ہری بھری یہ وادیاں، بنی ہوں شاہزادیاں
بچھے بہار پاؤں میں، گلوں کا سر پہ تاج ہو
کس وطن میں بھوک کا، رہے نہ کوئی مسئلہ
نگر نگر، ڈگر ڈگر، اناج ہی اناج ہو

ان کے بغیر جی تو رہے ہیں قتیل ہم

ان کے بغیر جی تو رہے ہیں قتیل ہم
کر لیں نہ بے مزا کہیں عمرِ طویل ہم
جذبے کمر خمیدہ ہیں سانسوں کے بوجھ سے
اس پر بھی کر رہے ہیں سفر کی سبیل ہم
آئیں گے اپنے بعد بھی کچھ راہروانِ شوق
رستے میں گاڑ دو کہ بنیں سنگِ میل ہم

گئے دنوں میں محبت مزاج اس کا تھا

گئے دنوں میں محبت مزاج اس کا تھا
مگر کچھ اور ہی انداز آج اس کا تھا
وہ شہریار جب اقلیمِ حرف میں آیا
تو میرا دست نگر تخت و تاج اس کا تھا
میں کیا بتاؤں کہ کیوں اس نے بیوفائی کی
مگر یہی کہ کچھ ایسا مزاج اس کا تھا

یہ فرمائش غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے

یہ فرمائش غزل کی ہے کہ فن کی آزمائش ہے
چلو جو بھی ہے اک جانِ سخن کی آزمائش ہے
مبارک ہو، بلاوہ آ گیا مستوں کو مقتل سے
چل اے دل اب تِرے دیوانہ پن کی آزمائش ہے
بہت سے ہاتھ ہیں دامانِ دل کو کھینچنے والے
جمالِ یار! تیرے بانکپن کی آزمائش ہے

میں تو لب کھول کے پابند سلاسل ٹھہرا

میں تو لب کھول کے پابندِ سلاسل ٹھہرا
تیری بات اور ہے تُو صاحبِ محفل ٹھہرا
کیا کہوں کس نے قبیلہ میرا تقسیم کیا؟
آج یوں ہے کوئی بسمل کوئی قاتل ٹھہرا
خوابِ آوارہ! کسی آنکھ کی تقدیر تو بن
کسی منزل پہ کبھی قافلۂ دل ٹھہرا

تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں

تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤں تو، آؤں میں
دل سے ستم کی بے سروکاری ہوا کو ہے
وہ گرد اڑ رہی ہے کہ خود کو گنواؤں میں
وہ نام ہوں کہ جس پہ ندامت بھی اب نہیں
وہ کام ہیں کہ اپنی جدائی کماؤں میں

اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار آ نکلو

اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار، آ نکلو
شروعِ شب کی محفل ہے مِری سرکار! آ نکلو
تمہیں معلوم ہے ہم تو نہ آنے کے نہ جانے کے
تڑپتا ہے تمہیں جی دیکھنے کو یار، آ نکلو
بھروسہ ہی نہیں تم کو کسی پر اور یہاں سب ہیں
تمہارے ساتھ آنے کے لیے تیار، آ نکلو

ہو بزم راز تو آشوب کار میں کیا ہے

ہو بزمِ راز تو آشوبِ کار میں کیا ہے
شراب تلخ سہی ایک بار میں کیا ہے
مآلِ کوہ کنی بھی نہ ہو سکا حاصل
نجانے حیلۂ شیریں شکار میں کیا ہے
جواب کچھ نہ ملے گا مگر سوال تو کر
کہ سوزِ غنچہ و صوتِ ہزار میں کیا ہے

معشوق کا تو جرم ہو عاشق خراب ہو

معشوق کا تو جرم ہو، عاشق خراب ہو
کوئی کرے گناہ، کسی پر عذاب ہو
تو مجھ پہ شیفتہ ہو، مجھے اجتناب ہو
یہ انقلاب ہو،۔ تو بڑا انقلاب ہو
دنیا میں کیا دھرا ہے، قیامت میں لطف ہے
میرا جواب ہو، نہ تمہارا جواب ہو

زمانہ بتوں پر فدا ہو رہا ہے

زمانہ بتوں پر فدا ہو رہا ہے
خدا کی خدائی میں کیا ہو رہا ہے
ستم ہو کے عذرِ جفا ہو رہا ہے
وہ کیا ہو رہا تھا، یہ کیا ہو رہا ہے
دھڑکتا ہے دل، کانپتا ہے کلیجا
ادا اس طرح مدعا ہو رہا ہے

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو

تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
دل میں سو شکوۂ غم پوچھنے والا ایسا 
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو
مجھ کو ملتا ہی نہیں مہر و محبت کا نشان
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو

ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے

ہوں خاک پا جو اس کی ہر کوئی سر چڑھاوے
منہ پھیرے وہ تو ہم کو پھر کون منہ لگاوے
ان دو ہی صورتوں میں شکل اب نباہ کی ہے
یا صبر ہم کو آوے یا رحم اس کو آوے
اس مہ بغیر آنکھوں میں سب سیہ ہے
دیکھیں تو عشق کیا کیا ہم کو سیمیں دکھاوے

مرتے ہیں ہم تو اس صنم خودنما کے ساتھ

مرتے ہیں ہم تو اس صنم خود نما کے ساتھ
جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ
دیکھیں تو کار بستہ کی کب تک کھلے گرہ
دل بستگی ہے یار کے بند قبا کے ساتھ
اے کاش فصلِ گل میں گئی ہوتی اپنی جان
مل جاتی یہ ہوا کوئی دن اس ہوا کے ساتھ

رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا

رفتار و طور و طرز و روش کا یہ ڈھب ہے کیا
پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا
ہم دل زدہ نہ رکھتے تھے تم سے یہ چشم داشت
کرتے ہو قہر لطف کی جاگہ غضب ہے کیا
عزت بھی بعد ذلت بسیار چھیڑ ہے
مجلس میں جب خفیف کیا پھر ادب ہے کیا

ایک آسیب زدہ شام

ایک آسیب زدہ شام

کل شام کی پیلی روشنی جب ڈوب رہی تھی
گھر پہنچا میں سوچ میں ڈوبا، گھبرایا
دور کہیں بنسری کی تان اڑا کے
ایک پرانے دوست نے جنگل میں بلایا
ویرانی ہے تنہائی ہے خاموشی ہے
ٹھیر ذرا اے دوست! میں آیا ابھی آیا

اس آباد خرابے میں

اس آباد خرابے میں 

لو وہ چاہِ شب سے نکلا، پچھلے پہر پیلا مہتاب 
ذہن نے کھولی، رکتے رکتے، ماضی کی پارینہ کتاب 
یادوں کے بے معنی دفتر، خوابوں کے افسردہ شہاب 
سب کے سب خاموش زباں سے، کہتے ہیں اے خانہ خراب 
گزری بات، صدی یا پل ہو، گزری بات ہے نقش بر آب 
یہ روداد ہے اپنے سفر کی، اس آباد خرابے میں 
دیکھو ہم نے کیسے بسر کی، اس آباد خرابے میں 

اے دور نگر کے بنجارے

اے دور نگر کے بنجارے

اے دور نگر کے بنجارے کیوں آج سفر کی ٹھانی ہے
یہ بارش، کیچڑ، سرد ہوا اور راہ کٹھن انجانی ہے
آ محفل چپ چپ بیٹھی ہے، آ محفل کا جی شاد کریں 
وہ لوگ کہ تیرے عاشق ہیں کے روز سے تجھ کو یاد کریں
وہ ٹھور ٹھکانے ڈھونڈ چکے، وہ منزل منزل چھُو آئے
اب آس لگائے بیٹھے ہیں کب دستک ہو کب تُو آئے

مستی رندانہ ہم سیرابی مے خانہ ہم

مستئ رندانہ ہم سیرابئ مے خانہ ہم
گردش تقدیر سے ہیں گردش پیمانہ ہم
خون دل سے چشم تر تک چشم تر سے تا بہ خاک
کر گئے آخر گل و گل زار ہر ویرانہ ہم
کیا بلا جبرِ اسیری ہے کہ آزادی میں بھی
دوش پر اپنے لیے پھرتے ہیں زنداں خانہ ہم

دل کی بجھتی ہوئی شمعوں کو فروزاں کر دیں​

آگ محفل میں غلاموں کی لگا دیں اے دوست​
دل کی بجھتی ہوئی شمعوں کو فروزاں کر دیں​
گائیں ٹوٹے ہوئے بربط پہ ترانے دل کے​
بزم کو اپنی نواؤں سے غزل خواں کر دیں​
کعبہ و دیر و کلیسا کی بجھا دیں قندیل​
ہر طرف مشرق و مغرب میں چراغاں کر دیں​

باندھا ہے کب سے رخت سفر یار من بیا

باندھا ہے کب سے رختِ سفر یارِ من بیا
اس بار لیت و لعل نہ کر، یارِ من بیا
لگنے کو ہے ہجومِ دل آزردگاں کی آنکھ
بجھنے کو ہے چراغِ نظر، یارِ من بیا
نادیدہ منزلوں کی خبر دے گی جسکی خاک
ہے منتظر وہ راہ گزر، یارِ من بیا

گئے دنوں سا پیار تو اب نئیں ہونے کا

گئے دنوں سا پیار تو اب نئیں ہونے کا
تم سے بھی دریا پار تو اب نئیں ہونے کا
ہم تو نیندیں بھی تاوان میں دے آئے
خوابوں کا بیوپار تو اب نئیں ہونے کا
ممکن ہے وہ بڑے تپاک سے ملے مگر
سینہ ٹھنڈا ٹھار تو اب نئیں ہونے کا

یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی

یہ دل یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا آوارگی
کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا، تُو کون ہے، اس نے کہا، آوارگی
یہ درد کی تنہائیاں، یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اکتا گئے، اپنی سنا، آوارگی

دیکھنے میں وہ دلدار ہے اور کیا

دیکھنے میں وہ دلدار ہے اور کیا
میری سوچوں کا شہکار ہے اور کیا 
آدمی بے کفن لاش ہے اور بس
آدمیت عزا دار ہے اور کیا 
میرے پاؤں کی زنجیر ہے زندگی
سانس بے ربط جھنکار ہے اور کیا 

تلاش گمشدہ اب تو گھر آ جاؤ

تلاشِ گمشدہ

اب تو گھر آ جاؤ
دل کے چین
تجھے کچھ کیا کہنا ہے
ہم نے مانا
تیرے روٹھ جانے میں تو

بتا کہ راہ وفا میں کوئی سوار دیکھا

بتا کہ راہِ وفا میں کوئی سوار دیکھا
کہا کہ میں نے تو صرف اڑتا غبار دیکھا
بتاؤ پتھر بنے ہو دیکھے گا کون تم کو
کہا کہ جس نے چٹان میں شاہکار دیکھا
بتاؤ نشہ جو سب کو نشے میں چُور کر دے
کہا محبت میں صرف ایسا خمار دیکھا

بنا ہوں آج تیرا مہماں کوئی عدو کو خبر نہ کر دے

بنا ہوں آج تیرا مہماں، کوئی عدو کو خبر نہ کر دے
اٹھا کے تیری انجمن سے، مجھے کہیں دربدر نہ کر دے
وصل کی رات ہے خدارا! نقاب چہرے سے مت ہٹاؤ
تمہارے چہرے کا یہ اجالا سحر سے پہلے سحر نہ کر دے
ستایا جس کو ہمیشہ تُو نے، سدا اکیلا جو چھپ کے رویا
وہ دل جلا اپنے آنسووں سے، تمہارا دامن بھی تر نہ کردے

Monday 16 January 2017

ہوتے ہوتے گھر مرا سایوں کا معبد ہو گیا

ہوتے ہوتے گھر مِرا سایوں کا معبد ہو گیا
صحن میں جو بیج بویا تھا وہ برگد ہو گیا
کھول دی جب کچھ خردمندوں نے فتوؤں کی دکاں
تب کوئی منصور ٹھہرا، کوئی سرمد ہو گیا
کیا ہے تعزیراتِ رحمت میں سزا ان کے لیے
بیخودی میں جن سے کوئی جرم سر زد ہو گیا

خلقت شہر سے کیوں ایسی بری بات کہے

خلقتِ شہر سے کیوں ایسی بری بات کہے
اس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے
جاننا چاہو جو گلشن کی حقیقت، تو سنو
بات وہ شاخ سے نُچ کر جو جھڑا پات کہے
اس سے بڑھ کر بھی ہو کیا غیر کی بالادستی
جیت جانے کو بھی جب اپنی نظر مات کہے

بچھڑے جب اس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں

بچھڑے جب اس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے، دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو رہے تھے دلیر ہم
کمزور تھے تو صرف محبت کے باب میں
کیا کیا برائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
لوٹائیں نیکیاں ہی جہانِ خراب میں

اس نے گھٹیا پن دکھایا ہے تو اس کا کیا کروں

اس نے گھٹیا پن دکھایا ہے تو اس کا کیا کروں
اس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ویسا کروں
وہ نہ خوشبوئے بدن تک کی کرن لوٹا سکیں
تتلیوں کے ہاتھ نامے میں، جنہیں بھیجا کروں
سرخرو مجھ سا، نہ مجھ سا ہو کوئی با آبرو
سامنے قدموں کے کھائی بھی اگر دیکھا کروں

دور ہوتی جاتی ہیں کشتیاں کناروں سے

دور ہوتی جاتی ہیں کشتیاں کناروں سے
اب لپٹ کے روئیں گے پھول شاخساروں سے
تم فقط زمانے کو ساتھ لے کے آئے تھے
ہم اٹھا کے لائے ہیں روشنی کو غاروں سے
پاؤں جم گئے تو کیا، رقص تھم گئے تو کیا
خوشبوئیں تو اٹھتی ہیں وصل کے مزاروں سے

پانی تڑپ کے چیخ اٹھے ایسے جال کھینچ

پانی تڑپ کے چیخ اٹھے ایسے جال کھینچ 
مچھلی اگر نہ آئے سمندر کی کھال کھینچ
رشتوں کے ساتھ بچوں کے جیسا سلوک کر 
غصے سے کان کھینچ، محبت سے گال کھینچ
لا میں زیاں کی آگ میں اس کو بھی جھونک دوں 
جا، دفترِ حیات سے ایک اور سال کھینچ

اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے

اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
آدمی کثرتِ انوار سے حیراں ہو جائے
تم جو چاہو تو مِرے درد کا درماں ہو جائے
ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مِری آساں ہو جائے
او نمک پاش! تجھے اپنی ملاحت کی قسم
بات تو جب ہے کہ ہر زخم نمکداں ہو جائے

منکشف تجھ پہ اگر اپنی حقیقت ہو جائے

منکشف تجھ پہ اگر اپنی حقیقت ہو جائے 
خود پرستی تِرے مذہب میں عبادت ہو جائے
بے خودی عشق میں گر خضرِ طریقت ہو جائے
حق تو یہ ہے غمِ کونین سے فرصت ہو جائے
یوں نہ چلیئے کہ ہو پامال دلوں کی دنیا
کہیں برپا نہ زمانے میں قیامت ہو جائے

ہم مے کدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے

ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
مۓ کش ہماری خاک کے ساغر بنائیں گے
وہ اک کہیں گے ہم سے تو ہم سو سنائیں گے
منہ آئیں گے ہمارے تو اب منہ کی کھائیں گے
کچھ چارہ سازی ہجر میں نالوں نے کی مِری
کچھ اشک میرے دل کی لگی کو بجھائیں گے

پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں

سال نو

پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
زمیں نے پھر نئے سر سے نیا رختِ سفر باندھا
خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا ہے
ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں سینے میں
جہان آرزو کا ذرہ ذرہ گنگناتا ہے

خوگر روئے خوش جمال ہیں ہم

خوگر روئے خوش جمال ہیں ہم 
ناز پروردۂ وصال ہیں ہم
ہم کو یوں رائیگاں نہ کر دینا
حاصلِ ماہ و سال ہیں ہم
رنگ ہی رنگ، خوشبو ہی خوشبو
گردشِ ساغرِ خیال ہیں ہم

فصل گل فصل خزاں جو بھی ہو خوش دل رہیے

فصلِ گل فصلِ خزاں جو بھی ہو خوش دل رہیے
کوئی موسم ہو ہر اک رنگ میں کامل رہیے
موج و گرداب و تلاطم کا تقاضا ہے کچھ اور 
رہیے محتاط تو بس تا لب ساحل رہیے
دیکھتے رہیے کہ ہو جائے نہ کم شان جنوں
آئینہ بن کے خود اپنے ہی مقابل رہیے

کیوں ترے ساتھ رہیں عمر بسر ہونے تک

کیوں تِرے ساتھ رہیں عمر بسر ہونے تک
ہم نہ دیکھیں گے عمارت کو کھنڈر ہونے تک
تم تو دروازہ کھلا دیکھ کے در آئے ہو 
تم نے دیکھا نہیں دیوار کو در ہونے تک
چپ رہیں، آہ بھریں، چیخ اٹھیں یا مر جائیں 
کیا کریں، بے خبرو! تم کو خبر ہونے تک 

یاد رکھ خود کو مٹائے گا تو چھا جائے گا

یاد رکھ خود کو مٹائے گا تو چھا جائے گا
عشق میں عجز ملائے گا تو چھا جائے گا
اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں مِرے شہر کے لوگ
تُو میرے شہر میں آئے گا تو چھا جائے گا
ہم قیامت بھی اٹھائیں گے تو ہو گا نہیں کچھ
تُو فقط آنکھ اٹھائے گا تو چھا جائے گا