ہوتے ہوتے گھر مِرا سایوں کا معبد ہو گیا
صحن میں جو بیج بویا تھا وہ برگد ہو گیا
کھول دی جب کچھ خردمندوں نے فتوؤں کی دکاں
تب کوئی منصور ٹھہرا، کوئی سرمد ہو گیا
کیا ہے تعزیراتِ رحمت میں سزا ان کے لیے
کافروں میں پَل کے بھی جس نے کیا ایماں قبول
مل کے مجھ جیسے مسلماں سے وہ مرتد ہو گیا
کی سفارش میں نے جس کی وہ نہ آیا لوٹ کر
ایسا لگتا ہے کہ اس کا کام شاید ہو گیا
سن رہے تھے کل مِری تقریر کچھ بونے قتیلؔ
یوں لگا جیسے بہت اونچا مِرا قد ہو گیا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment