شاہی دربار میں جوتے اتارنے سے پہلے
جان، مال اور عزت کی تختیاں
اتار لی جاتی ہیں ہماری گردنوں سے
اور ہمارے مکانوں کے نقشے پھاڑ کر
باندھ دیئے جاتے
ہیں ان زخموں پر
جو حادثو ں کے خوف سے
گہرے ہو گئے
بُھربُھرے ہو کر بہہ گئے جن کے کنارے
ان پانیوں کے ساتھ
سی دی گئی ہیں ہماری کشتیاں
ڈال دی گئی ہے
تیزاب
ہمارے گھر کی بنیادوں میں
اور جُھلسی ہوئیں اینٹیں ادھیڑ کر
بُنا گیا ہے
ایک نارنجی راستہ
ہم
پیتل کے برتنوں میں
مری ہوئی بارشیں اکٹھی کرتے ہیں
اور زندگی کے برساتی نالوں میں
پُھدکتے پھرتے ہیں
مینڈکوں کی طرح
سدرہ سحر عمران
No comments:
Post a Comment