Monday 23 January 2017

ڈرتے نہیں زخموں سے ہم دار و رسن والے

ڈرتے نہیں زخموں سے، ہم دارورسن والے 
پتھر نہ اٹھا ہم پر شیشے کے بدن والے
سونے کی لحد میں بھی، شاید نہ سکوں پائیں
لاشے ہیں یہاں جتنے، ریشم کے کفن والے
جو یاد دلاتے تھے، اک بھولنے والے کی
جھونکے وہ کہاں یارو، پورب کی پون والے
راتیں مری ڈوبی ہیں، تاریک اجالوں میں
اب چاند چمکنے کو آتے ہیں گہن والے
تُو آئے تو لگتا ہے، اپنی بھی سحر ہو گی
انداز ہیں سب تیرے سورج کی کرن والے
منظور پرستش ہے، اک سانولی صورت کی
غزلوں میں سجاتا ہوں، الفاظ بھجن والے
ہم کچھ بھی نہ بولیں گے جو چاہو ہمیں کہہ لو
ہم لوگ ہیں پردیسی، اور تم ہو وطن والے
برباد ہوئی فن میں، اک عمر قتیؔل اپنی
ملتے ہیں کہاں ہم سے، فنکار لگن والے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment